گل دسته



گل دسته

میں نے اپنا ہاتھ جیب میں دیا اور محسوس کیا کہ وہ دس تومان جو میری جیب میں تھے وہ ابھی بھی میری جیب میں ہیں ۔ جب میں پیسوں کی طرف سے مطمئن ہوگیا تو میں نے اپنا ہاتھ جیب سے نکال لیا ۔ اورگاڑی سے اتر کر چلنے لگے ،میری والدہ نے مجھ سے کہا کہ اپنے اطراف میں دیکھتے ہوئے چلو اگر کوئی دکان مل گئی تو میں تمہیں کچھ چیز دلوادوں گی، میں ایک ایک دکان کو دیکھتا ہوا چل رہاتھا لیکن مجھے وہاں پر پھول بینچنے والے کی کوئی دکان نظر نہیں آئی۔ میں نے سوچا کہ کہیں اور سے جا کر خرید لوں گا ، یہ سوچتے ہوئے میں تیزی سے چلنے لگا اور اپنی جیب میں دس تومان کو مٹھی میں دبا کردیکھا اور دوبارہ جیب میں رکھ دیا۔

حرم کے چاروں طرف بہت ساری گاڑیاں اور بسیں کھڑی ہوئی تھیں،بہت سی گاڑیوں کے پاس ان کے ڈرائیور اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ۔ ہم لوگ حرم میں داخل ہوئے ،کچھ لوگ حرم میں داخل ہورہے تھے اور کچھ لوگ حرم سے باہر جارہے تھے ،بہت سے کبوتر حرم کے اوپر پرواز کررہے تھے ۔ بہت مشکل سے ہم لوگ ضریح تک پہنچے ۔ میں نے ضریح کو اپنے ہاتھ سے پکڑ کر ضریح پر اپنا سررکھ دیا ،ضریح کے اندر امام رضاعلیہ السلام کی مقدس قبر نظر آرہی تھی ، اس کے چاروں طرف بہت سارے پیسہ پڑے ہوئے تھے جس میں ایک سے لے کر ایک ہزار تومان تک کا نوٹ تھا ،اتنے سارے پیسہ دیکھ کر مجھے بہت تعجب ہوا!۔

اپنی والدہ گرامی سے پوچھا: یہاں پر یہ اتنا پیسہ کس نے ڈالاہے؟

میری والدہ نے جواب دیا: جو لوگ یہاں زیارت کے لئے آتے ہیں اور وہ لوگ جو نذر کرتے ہیں وہ اس میں پیسہ ڈالتے ہیں۔

پھر میں نے دوسرا سوال کیا: تو اس کے بعد پھر یہ پیسہ کہاں جاتاہے؟

میری ماں نے جواب دیا: یہاں سے پیسوں کو اٹھا کر پہلے ضریح کی صفائی کرتے ہیں اور اس پر گلاب چھڑکتے ہیں ،اس پیسہ سے حرم کی تعمیر کرتے ہیں، محرومین کی مدد کرتے ہیں اورمسجد ومدرسہ بنواتے ہیں،اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اچھے کام انجام دیتے ہیں۔

میں نے دوبارہ ضریح میں جھانک کر دیکھا ،اپنے ہاتھ کو جیب میں ڈالا اور دس تومان کو نکال کر ضریح میں ڈالدیا، میری والدہ بھی خوشحال ہوگئیں۔۔۔ دس تومانی ان تمام پیسوں میں گم ہوگئی۔