پھلے امام حضرت علی علیه السلام



پھلے امام حضرت علی علیه السلام

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام پھلے امام ھیں۔ آپ حضرت ابوطالب کے بیٹے ھیں جو بنی ھاشم خاندان کے معتبر فرد تھے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی چچا بھی تھے جنھوں نے پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ سلم کو اپنی زیر سرپرستی لے کر اپنے گھر میں جگہ دی اور ان کی دیکہ بھال اور پرورش کی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے بعد وہ جب تک زندہ رھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حمایت کرتے ھوئے عربی کفار اور خاص کر قریش کے حملوں اور شرارتوں سے آپ کو محفوظ رکھا۔

حضرت علی علیہ السلام(مشھور قول کے مطابق) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے دس سال پھلے پیدا ھوئے اور ابھی چھ سال کے ھی تھے کہ شھر مکہ اور گرد و نواح میں سخت قحط پڑا۔ اس لئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خواھش کے مطابق آپ اپنے آبائی گھر سے اپنے چچا زاد بھائی رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر تشریف لے گئے اور آپ کی براہ راست سرپرستی میں پرورش پاتے رھے۔(۱)

چند سال بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے نبوت عطا ھوئی اور پھلی بار غار حرا میں آپ پر آسمانی وحی نازل ھوئی۔ آپ غار حرا سے شھر اور گھر کی طرف تشریف لے جا رھے تھے ۔حضرت علی علیہ السلام سے تمام واقعہ بیان کیا تو حضرت علی علیہ السلام فوراً آپ پر ایمان لے آئے۔(۲)

اس کے بعد پھر جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو جمع کرکے دین مبین کی دعوت دی تو اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص سب سے پھلے میری دعوت دین قبول کرے گا، وھی میرا خلیفہ، وصی اور وزیر ھوگا۔“جو شخص سب سے پھلے اپنی جگہ سے اٹھا اور بآواز بلند ایمان لایا وہ حضرت علی علیہ السلام ھی تھے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی ان کے ایمان کو قبول کر لیا اور ان کے بارے میں اپنے وعدے پورے کئ (۳)

اس لحاظ سے حضرت علی علیہ السلام پھلے شخص ھیں جنھوں نے اسلام قبول کیا اور پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لائے اور سب سے پھلے شخص ھیں جنھوں نے ھر گز خدائے وحدہ لاشریک کے علاوہ کسی اور کی پرستش اور عبادت نھیں کی۔

حضرت علی علیہ السلام ھمیشہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم Ú©Û’ ساتھ ساتھ رھتے تھے۔ یھاں تک کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم Ù†Û’ مکہ سے مدینہ ھجرت فرمائی۔ اس رات بھی جبکہ کفار مکہ Ù†Û’ آنحضرت صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم Ú©Û’ مکان Ú©Ùˆ گھیرے میں Ù„Û’ رکھا تھا اور پختہ ارادہ کئے ھوئے تھے کہ رات Ú©Û’ آخری حصے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم Ú©Û’ گھر میں داخل Ú¾Ùˆ کر آپ Ú©Ùˆ بستر مبارک پر Ú¾ÛŒ قتل کر دیں Ú¯Û’ تو حضرت علی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم Ú©Û’ بستر مبارک پر سو گئے اور آپ گھر سے Ù†Ú©Ù„ کر مدینہ Ú©ÛŒ طرف روانہ ھوگئے  (Û´)پھرمولائے کائنات بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم Ú©ÛŒ وصیت Ú©Û’ مطابق لوگوں Ú©ÛŒ امانتیں ان Ú©Û’ مالکوں Ú©Ùˆ واپس لوٹا کر اپنی والدہ ماجدہ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم Ú©ÛŒ بیٹی (حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا) اور گھر Ú©ÛŒ دوسری عورتوں Ú©Ùˆ ساتھ Ù„Û’ کر مدینہ روانہ ھوگئے۔(Ûµ)

مدینہ منورہ میں بھی آپ ھمیشہ پیغمبر خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ رھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کبھی بھی علی کو اپنے سے جدا نھیں کرتے تھے ۔ اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاکی شادی آپ نے ان کے ساتھ کردی تھی اور ایسے ھی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے اصحاب کے درمیان دوستی اور برادری کا معاھدہ کرتے تو حضرت علی کو اپنا بھائی کھہ کر پکارا کرتے تھے۔(۶)

حضرت علی علیہ السلام Ù†Û’ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم Ú©ÛŒ تمام جنگوں میں شرکت Ú©ÛŒ اور ھر جنگ میں حاضر رھے سوائے جنگ تبوک Ú©Û’ کیونکہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم Ù†Û’ ان Ú©Ùˆ مدینہ میں اپنی جگہ قائم مقام Ú©Û’ طور پر مقرر فرمایا تھا۔  (Û·) لھذا حضرت علی علیہ السلام نہ تو کبھی کسی جنگ میں پیچھے رھے اور نہ Ú¾ÛŒ کبھی کسی دشمن سے شکست کھائی اور نہ Ú¾ÛŒ کسی کام میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم Ú©ÛŒ مخالفت کی۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم Ù†Û’ فرمایا کہ علی ھر گز حق سے جدا نھیں Ú¾Û’ØŒ اور حق علی سے جدا نھیں (Û¸)

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے وقت آپ کی عمرتیتیس سال کی تھی اگر چہ آپ تمام فضائل دینی میں سے سب سے بڑھ کر تھے اور تمام اصحاب کے درمیان ممتاز تھے پھربھی اس بھانے سے کہ آپ جوان ھیں اورپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں چونکہ جنگوں میں سب سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور سب سے آگے ھوتے تھے ، ان جنگوں میں خونریزی کی وجہ سے لوگ آپ کے مخالف اور دشمن ھو گئے تھے، آپ کو خلافت سے الگ کر دیا گیا اور اس طرح آپ عمومی کاموں میں حصہ نہ لے سکے اور گھر میں گوشہ نشین ھو کر اشخاص کی تربیت کرنے لگے۔ آپ پچیس سال تک یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد تین خلفاء کی خلافت کے زمانے میں حکومت اور خلافت سے بالکل الگ تھلگ رھے تھے اور خلیفہ سوم کے قتل کے بعد عوام نے آپ کو خلیفہ منتخب کرکے آپ کے ھاتھ پر بیعت کی تھی۔

حضرت علی علیہ السلام اپنے زمانۂ خلافت میں جو تقریباً چار سال نو مھینے جاری رھا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت اور روش پر عمل پیرا رھے۔ آپ نے اپنی خلافت کو ایک تحریک یا انقلاب میں تبدیل کردیا اور اس کے ساتھ اصلاحات بھی شروع کیں لیکن چونکہ یہ اصلاحات بعض مفاد پرست لوگوں کے نقصان میں تھیں اس لئے بعض اصحاب پیغمبرنے جن میں آگے آگے حضرت عائشہ، طلحہ، زبیر، اور معاویہ تھے، خلیفہ سوم کے خون کو بھانہ بنا کر آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ھوگئے اور اس طرح انھوں نے شورش، بغاوت اور نافرمانی شروع کردی۔



1 2 3 next