بارھویں امام حضرت مهدی موعود علیه السلام



بارھویں امام حضرت مهدی موعود علیه السلام

حضرت مھدی موعود علیہ السلام (جو عام طور پر ”امام زمان“ اور صاحب الزمان“ کے لقب سے یاد کئے جاتے ھیں) گیارھویں امام کے فرزند ھیں اور ان کا نام بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر ”محمد“ ھے۔ آپ کی ولادت ۲۵۵ھ میں سامرا میں ھوئی۔ ۲۶۰ھ یعنی اپنے والد ماجد کی شھادت تک ان کے زیر تربیت زندگی گزارتے رھے لیکن لوگوں سے بالکل الگ اور ان کی نظروں سے پنھاں ۔سوائے خاص شیعوں کے کسی کو آپ کے بارے میں کوئی اطلاع نہ تھی اور نہ ھی کوئی ان سے ملاقات کرسکتا تھا۔

گیارھویں امام کی شھادت کے بعد جب آپ امامت کے منصب پر فائز ھوئے تو آپ خدا کے حکم سے غائب ھوگئے اور اپنے نائبین کے سوا کسی کو نظر نھیں آتے تھے اور وہ بھی خاص حالات میں۔(1)

خاص نائبین

حضرت امام مھدی علیہ السلام نے ایک مدت تک عثمان بن سعید عمری کو جو آپ کے دادا اور پھر آپ کے والد کے اصحاب میں سے تھےنیزثقہ اور امین بھی تھے، اپنا نائب مقرر کیا۔ ان کے ذریعے شیعوں کے سوالات اور درخواستوں کے جواب دیا کرتے تھے۔

عثمان بن سعید کے بعد ان کے بیٹے محمد بن عثمان امام مھدی علیہ السلام کے نائب ھوئے اور ان کی وفات کے بعد ابوالقاسم حسین بن روح نو بختی آپ کے نائب خاص کی حیثیت سے منصوب ھوئے۔ حسین بن روح کی وفات کے بعد علی بن محمد سمری کو امام مھدی علیہ السلام کی نیابت حاصل ھوئی۔

ابھی علی بن محمد سمری کی وفات میں چند دن باقی تھے (جو ۳۲۹ھ میں فوت ھوئے) کہ امام مھدی علیہ السلام کی طرف سے ایک حکم نامہ جاری ھوا جس میں علی بن محمد سمری سے کھا گیا تھا کہ وہ چھ دن بعد فوت ھو جائیں گے اور اس کے بعد خاص نیابت کا عھدہ ختم ھو جائے گا اور غیبت کبریٰ شروع ھوجائے گی۔ یہ غیبت کبریٰ اس دن تک جاری رھے گی جب تک اللہ تعالیٰ امام مھدی علیہ السلام کے دوبارہ ظھور کا اذن فرمائے گا۔(2)

اس حکم کے مطابق حضرت امام مھدی(ع) علیہ السلام کی غیبت دو حصوں میں تقسیم ھوتی ھے:

۱۔ غیبت صغریٰ: غیبت صغریٰ ۲۶۰ھ سے شروع ھوئی اور ۳۲۹ھ تک جاری رھی۔ اس غیبت کا عرصھستر سال ھے۔

۲۔ غیبت کبریٰ: غیبت کبریٰ کا زمانہ ۳۲۹ھ سے شروع ھوا اور جب تک خدا تعالیٰ چاھے گا یہ غیبت جاری رھے گی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک حدیث شریف میں فرماتے ھیں (جس پر تمام اسلامی فرقوں کو اتفاق ھے):

”اگر دنیا کی زندگی ایک دن بھی باقی رھتی ھوگی تو بھی خداوند تعالیٰ اس دن کو اس قدر لمباکردے گا کہ امام مھدی (علیہ السلام) جو میرے بیٹے ھیں تشریف لائیں گے اور اس دنیا کو عدل و انصاف سے مال مال کردیں گے، اگر چہ یہ دنیا ظلم و ستم سے بھری ھوئی کیوں نہ ھو۔

امام مھدی علیہ السلام کا ظھور  (عام عقیدے Ú©Û’ مطابق)

ھم نے نبوت اور امامت کی بحث میں اشارہ کیا ھے کہ عام ھدایت کے قانون کے مطابق جو ھر قسم کی آفرینش اور کائنات میں جاری و ساری ھے، بنی نوع انسان ضرورت کے لحاظ سے ایک ایسی طاقت رکھتے ھیں (وحی و نبوت کی طاقت) جو ان کو کمال انسانیت اور سعادت کی طرف رھنمائی کرتی ھے۔ ظاھر ھے کہ اگر یہ کمال و ترقی اور سعادت انسان کے لئے امکان پذیر اور قابل وقوع نہ ھو تو اس کی طاقت اور قوت منسوخ اور باطل ھو جائے گی، لیکن آفرینش اور فطرت میں منسوخی یا ابطال موجود ھی نھیں ھے نیزجب سے انسان اس دنیا میں سکونت اور قیام پذیر ھے، اسی دن سے اس کو ھمیشہ ایک ایسی اجتماعی زندگی کی آرزو اور خواھش رھی ھے جو حقیقی سعادت اور خوشحالی پر مبنی ھو اور اس سعادت تک پھنچنے کے لئے لگاتار کوشش میں مصروف ھے۔ اگر یہ آرزو اور خواھش یا امید پوری ھونی محال ھوتی یا اس کا کوئی بیرونی وجود نہ ھوتا تو ھرگز انسان کے دل میں ایسی خواھش یا امید پیدا ھی نہ ھوتی۔ اور اگر عضو تناسل نہ ھوتا تو جنسی یا نفسانی خواھش بھی پیدا نہ ھوتی۔



1 2 next