مقد مہٴ مقتل الحسین(ع) ابومخنف




Deprecated: Function eregi_replace() is deprecated in /home/urdalshia/public_html/page.php on line 99

Deprecated: Function split() is deprecated in /home/urdalshia/public_html/page.php on line 103

جب انسان نے لکھنا سیکھا تو اپنے اور دوسروں کے کارناموں کو زیو ر تحر یر سے آراستہ کیااوراس طرح آھستہ آ ھستہ تا ریخ وجود میں آئی ۔

 ظھور اسلام کے وقت عرب میں تاریخ چند ایسے لو گوں پر منحصر تھی جو انساب عرب سے آگاہ اور انکے اھم دنوں سے واقف تھے۔ عرب ان کو کو علا مہ[1]کھا کر تے تھے۔ انھیں میں سے ایک نضر بن حارث بن کلدہ تھاجو ایران وروم کا سفر کیا کر تا تھا اور وھاں سے ایسی کتا بیں خریدکر لا تا تھا جس میں اھل فارس کی داستا نیں ھوا کر تی تھیں؛ جیسے رستم واسفندیار وغیرہ کی کھا نیاں۔یہ شخص انھیں کھا نیوں کے ذریعے لوگوں کو لھو ولعب میں مشغول رکھتا تھا تا کہ لو گ قرآن مجید نہ سن سکیں ۔ خدا وندعالم کی طرف سے اسکی مذمت میں آیت نازل ھو ئی :” وَمِنَ النَّاسِ مَن ےَّشْتَرِیْ لَھْوَالْحَدِ یْثِ لِےُضِلَّ عَنْ سَبِےْلِ اللّہِ بِغَیرعِلْمٍٍِ ویتخِذَھَا ھُزُواًاُوْلٰئِکَ لَھْمْ عَذَا بٌ مُّھِین  وَاِذَاتُتْلَٰی عَلَیہ آا تُنَا وَلَّیٰ مُسْتَکْبِرًا کَاٴَ ن     لَّمْ یسْمَعْھَاکَاَنَّ فِی اُذْنَیہ وَقْرًا فَبَشِّرْہُ بِعَذَاْبٍ اَلِےْمٍ“ [2]

 مد ینہ میں بھی اسی طرح کاایک شخص تھا جس کا نام سوید بن صامت تھا وہ انبیائے ما سلف کے قصّے کوجو یھود و نصاریٰ کی کتابوں میں موجود تھے لوگوں کو جمع کر کے سنایا کرتا تھا اور اس طرح سے لوگوں کو بیھودہ باتوں میں مصروف رکھتا تھا۔ جب اس نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کی خبر سنی تو مدینہ سے حج یا عمرہ کی غرض سے مکہ روانہ ھوا۔مکہ پھنچ کر اس نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ملاقات کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی ۔سوید نے آپ سے کھا: ھمارے پاس لقمان کے حکمت آمیز کلمات موجود ھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :ذرا مجھے بھی دکھاوٴ ! اس نے ایک نوشتہ آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :”ان ھٰذا لکلا م حسن والذي معي احسن منہ ،قرآن انزلہ اللّہ عليّ ھد ی و نوراً “[3]

بیشک یہ کلام اچھا ھے لیکن میرے پاس اس سے بھی بھتر کلام قرآن ھے جسے اللہ نے مجھ پر نازل کیا ھے جو ھدایت اور نور ھے ۔

  تاریخی دستاویزمیں گذشتہ انبیاء اور ان کی امتوں کی داستانیں بھی شمار ھو تی ھیں، جسے طبری اور محمد بن اسحاق نے ذکر کیا ھے۔یہ وھی تاریخی شواھد ھیں جو اسلام سے قبل بعض اھل کتاب دانشوروں کے ذریعے سے ھم تک پھنچے ھیں؛لہٰذاٰ ظھور اسلام اور قلب پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن نازل ھونے سے پھلے کی تاریخ کے سلسلے میں ھماری معلو مات اسی حد تک محدود ھے۔ ایسے بد تر ین ما حول میںاسلام، قرآن مجیدکے ھمراہ آیا اور صبح وشام اس کی تلاوت ھو نے لگی۔ ا یسی صورت میں حفا ظ کرام کے حفظ کے باوجود ضرورت پیش آئی کہ اس مبارک کتا ب کوقلمبندکیا جا ئے۔ اسی ضرورت کے پیش نظرقرآن مجیدپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھی کے دور میں صفحہٴ دل پر نقش ھو نے کے ساتھ ساتھ صفحہٴ قرطاس پر بھی محفوظ ھو نے لگا ،لیکن قرآن کی تفسیر ،گذشتہ شر یعتوں اورادیان کی خبر یں ، مسائل وا حکام شرعیہ کی تفصیلات کے سلسلے میں پیغمبراسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث ،آپ کی سیرت وسنت اور جنگ و غزوات کے حالات کی تفصیلات غیر مدوّن رہ گئیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم فنا سے ملک بقا کی طرف کو چ کر گئے؛ اب آپ کے پیرومسلمان ان لوگوں سے حد یثیںکسب کر نے لگے جنھوں نے احادیث کو حفظ کر لیا تھا اورخود پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ان حدیثوں کو سناتھا یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی عملی زندگی میں اس کو دیکھاتھا۔

 ادھر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ان لوگوں نے سراٹھا نا شروع کیا جو آپ کی حیات میں مسلمان ھونے کا دم بھر تے تھے ایسے لوگوں کے خلاف اصحاب رسول جنگوں میں شرکت کے لئے میدان میں اترآئے تو فقط یمامہ کی جنگ میںجو مدعی نبوت مسیلمہ کذ اب اور اس کے ساتھیوں کے خلاف لڑی گئی تھی تقریباً تین سو (۳۰۰)افراد سے زیادہ شھید ھو ئے [4]  ایسی صورت حال میں اصحاب کواحادیث رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی تدوین کی فکر لاحق ھو ئی،لیکن صحابہ اس پر متفق نہ ھو سکے؛ بعض نے اجازت دی تو بعض نے منع کیا لیکن افسوس اس کا ھے کہ ترجیح تدوین سے روکنے ھی والوں کو دی گئی کیوں کہ ادھر خلیفئہ اول [5]و دوم [6]و سوم[7]تھے۔ منع حدیث کایہ سلسلہ دوسری صدی ھجری تک ان کے پیر وٴں کے درمیان باقی رھا آخر کار مسلمانوں نے مل جل کر خود کو اس مصیبت سے نجات دلائی اور تاریخ نویسی کا سلسلہ شروع کیا ۔

 اسلام کا پھلا تاریخ نگار

۱میر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجھیز و تکفین کے بعد تدوین و تحریر کے کام کو لازم و ضروری سمجھتے ھوئے قلم سنبھالا اورخودیہ عھد کیا کہ نماز کے علاو ہ اس وقت تک دوش پرردا نھیں ڈالوں گاجب تک کہ قرآن مجید کوترتیب نزولی کے مطابق مرتب نہ کر لوں۔اس تدوین میں آپ نے عام و خاص، مطلق و مقید ،مجمل و مبین ، محکم و متشابہ ، ناسخ و منسوخ، رخصت وعزائم اور آداب وسنن کی طرف اشارہ کیا، اسی طرح آیات میں اسباب نزول کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی اور جھاں بعض پھلوؤں میں مشکل دکھائی دیتی تھی اس کو بھی واضح کیا ۔

کتاب عزیزکی جمع بندی کے بعد آپ نے دیّات کے موضوع پربھی ایک کتاب تالیف فرمائی جسے اس زمانے میں”صحیفہ“کھاجاتاتھا۔ابن سعید نے اپنی کتاب کے آخر میں جو”الجامع“کے نام سے معروف ھے ا س کاذکرکیا ھے اور بخاری نے بھی اپنی صحیح میں متعدد مقامات پر اس کا تذکرہ کیا ھے مثلاً جلد اول کی” کتاب العلم“ ھی میں اس کاتذکرہ موجود ھے۔

اسی زمانے میںآپ کے چاھنے والوں کی ایک جماعت نے آپ کی اس رو ش کی بھر پور پیروی کی جن میں ابو رافع ابراھیم القبطی اور ا س کے فرزند علی بن ابی رافع اور عبید اللہ بن ابی رافع قابل ذکر ھیں ۔

 عبید اللہ بن ابی رافع نے جمل ،صفین اور نھروان میں شرکت کرنے والے اصحاب  کے سلسلہ میں ایک کتاب لکھی [8]جو تاریخ تشیع میں، تاریخ کی سب سے پھلی کتاب مانی جاتی ھے۔ تاریخ نویسی میں شیعہ تمام مسلمانوں کے درمیان میر کارواں کی حیثیت رکھتے ھیں۔دیگر مورخین جیسے محمد بن سائب کلبی متوفیٰ۱۴۶ھ ،ابو مخنف لوط متوفیٰ۱۵۸ھ اور ھشام کلبی۲۰۶ھوغیرہ کی تا ریخی کتابیں، تاریخ اسلام کے اولین مصادر و منابع میں شمار ھوتی ھیں۔[9]



1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 next