امامت انسانی ضرورت اور الٰہی نعمت




Deprecated: Function eregi_replace() is deprecated in /home/urdalshia/public_html/page.php on line 99

Deprecated: Function split() is deprecated in /home/urdalshia/public_html/page.php on line 103

 

پیغمبر اور امام  کی ضرورت کا معیار

بیشک انسانوں کے ہر معاشرہ وسماج کے لئے، ایک طاقتور اور بااختیار رہبر وپیشوا کی ضرورت ہے ،جس کی تدبیر اور قیادت کے تحت انکے مسائل حل ہوں:

“لا بُدَّ لِلنّٰاسِ مِن أَمٖیر برّ أو فاجر” ([1])

لوگوں کےلیے حاکم ہونا ضروری ہے خوا ہ نیک ہو خواہ بد ہو۔ لیکن امامت اور ولایت کا مسئلہ لوگوں کی رہبری اور ان کے دنیاوی امور کو چلانے سے بالاتر ہے،پس پیغمبر اور امام معصوم کی ضرورت کامعیار، مذکورہ امور میں منحصرنہیں ہے۔

بعض علماء نبوت وامامت کی ضرورت پر یوں استدلال کرتے ہیں: چونکہ بشر ایک سماجی اورمدنی موجود ہے اور نظم،جو کہ تہذیب وتمدن کا لازمہ ہے صرف قانون  کے تحت حاصل ہوتاہے۔ لہٰذا ہمیشہ ہر انسان کو نبی اور امام کی ضرورت ہے تاکہ وہ قوانین کو وضع کر کے انہیں عملی جامہ پہنائیں کہ اس سے  نظم کو بقاء اور تہذیب وتمدن کو ترقی حاصل  ہو جائے۔ ([2])

خواجہ نصیرالدین طوسی (قدس سرہ )اس برھان پر اعتراض کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نبوت وامامت کی ضرورت کو ثابت کرنے کے لئے یہ بیان کافی نہیں ہے کیونکہ بہت سے ایسے  انسان اورمعاشرے ہیں کہ جنہوں نے کسی دین کو نہیں اپنایا ہے اور نہ کسی نبی یا  امام کی پیروی کرتے ہیں، لیکن ہم سے بہتر یا ہماری ہی طرح زندگی گذار رہے ہیں۔ ایک ایسی تہذیب ،قانون ونظم کے پابند ہیں کہ جن کے ذریعہ ان کی دنیاوی ضرورتیں پوری ہورہی ہیں۔ پس نبوت وامامت کی ضرورت اس لئے نہیں ہے کہ اس سے ہماری دنیا بہتر ہوگی بلکہ ان کی ضرورت اس لئے ہے کہ ہم ہمیشہ باقی رہنے والےموجودات ہیں اور ایک نامحدود وطولانی راستہ ہمارے سامنےہے، یہ وہ ابدی، اور نا محدود راستہ ہے جسے قیامت کے نام سے جانتے ہیں، اس ابدی سعادت کے راستے کوطے کرنے کے لئے انبیا کی بعثت اور ائمہ علیہم السلام کےمنصوب ہونے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم مرنے کے بعد نباتات کی طرح  بوسیدہ  ہو کرنابود ہو جاتے، تو قانون کاہونا اور معاشرہ کی سماجی مشکلات کا حل ہونا ہی نبوت وامامت کی ضرورت کو پوری کر دیتا، لیکن مرنے کے بعد، قبر، برزخ ،قیامت، اعمال کا پیش ہونا، حساب، میزان، صراط، جنت وجہنم ہمارے سامنے ہیں اور ہم ان کی حقیقت  اور کیفیت سے واقف نہیں ہیں اور دوسری طرف ہم ہیں اور ابدیت۔

جو فکر بھی ہمارے ذہن میں خطور کرتی ہے یا جو فعل بھی ہم سے سرزد ہوتا ہے وہ ہماری  ابدیت سے متصل ہے اور ہم ایسے عقاید، اخلاق اور اعمال کے محتاج ہیں جو ہماری موت سے لے کر برزخ تک اور پھر برزخ سے لے کر جنت تک پہنچنے میں ہماری حفاظت وراہنمائی کریں۔ اس ضرورت کا جبران کرنا ایسے شخص کے وجود سے وابستہ ہے جس کے اقوال ہمارے ماضی اور مستقبل سے سازگار ہوں، اور انبیاءعلیہم السلام  ان اقوال کو خدا وند عالم کی ذات قدسی سے حاصل کرتے ہیں اور پھرآئمہ علیہم السلام، انبیاء سے لے کر مومنین تک پہنچاتے ہیں۔ ([3])

نوٹ: محقق طوسیؒ نے اس عمیق مطلب کو شیخ الرئیس  بو علی سینا ؒکی کلام سے حاصل کیا ہے، کیونکہ جناب بوعلی نے نبوت کے مسئلہ کو عبادت، زہد، عرفان اور عابد، زاہد اور عارف کے درمیان دقیق فرق کی بحث میں بیان کیا ہے۔ وہ چیزین جو محقق طوسیؒ کی گفتار میں آئی ہیں وہ بو علی سیناؒکے بیانات پر نقد نہیں ہے بلکہ ان کے کلمات کی توضیح وتشریح ہے۔

مکتب قرآن وعترت کے دیگر شاگردوں نے بھی مختلف بیانات کے ذریعہ انبیاءعلیہم السلام کی بعثت اور ائمۂ حق علیہم السلام کے منصوب ہونے کے بارے میں بحث وگفتگو کرتے ہوئے مختلف معیاروں اور جہات کا جائزہ لیا ہے ان میں سے برجستہ ترین شخصیت جناب ہشام بن حکمؒ ہیں کہ شیخ کلینیؒ نے ان کے اور عمر بن عبید معتزلی کہ جو امامت اور ولایت کا منکر تھا، کے درمیان ہونے والے مناظرہ کو اس طرح سے نقل کیا ہے:

حضرت امام جعفر صادق ؑنے اپنے شاگردوں سے فرمایا: “میں نے سنا ہے کہ تم لوگوں نے عمر بن عبید کے ساتھ امامت اور ولایت کے موضوع پر مناظرہ کیا ہے؟ کسی نے عرض کیا، جی ہاں لیکن آپ  کے حضو رمیں اس کی توضیح دینے سے قاصر ہوں، امام جعفر صادقؑ نے فرمایا میں تمہیں اجازت دیتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ اسے بیان کرو۔

ہشامؒ نے عرض کیا: اس کی علمی محفل کہ جومسجد بصرہ میں تھی اس میں شریک ہوا اور اس سے پوچھا: کیا تمہاری آنکھیں ہیں؟ کان، اعضاءاورجوارح ہیں؟ اس نے کہا: کیا نامناسب اورغیرسنجیدہ سوال کر رہے ہو !میں نے کہا: میرے سولات یہی ہیں تم جواب دو اورمجھے اجازت دو کہ اپنے سوالات کو بیان کروں ۔اس نےکہا: ہاں میری آنکھیں، کان، اعضاءاور جوارح ہیں، میں نے کہا: اس کے علاوہ تم سمجھنے اور حرکت دینےکی قوت، عقل اور قلب بھی رکھتے ہو؟ اس نے کہا: ہاں ۔میں نے کہا: تمہارے پاس آنکھ ہے تا کہ دیکھو، کان ہے تاکہ سنو اور تمہاری دیگر ضرورتیں بھی سمجھنے اور حرکت کرنے کی قوتوں کے ذریعہ پوری ہو جاتی ہیں تو اب عقل وقلب کی کیا ضرورت ہے ؟اس نے کہا: ان کی بھی ضرورت ہے، تاکہ اعضاءکی راہنمائی، ہدایت اور کنٹرول کریں اور انکے ذریعے آنکھ، کان اور اپنے دیگر اعضاء وجوارح کو خطا سے محفوظ رکھتا ہوں۔ میں نے کہا: جس خدا نے سمجھنے اور حرکت دینے کی قوت کو خطا سے محفوظ رکھنے کے لئے قلب کو پیدا کیا ہے، کیا اس نے کائنات اور انسانی معاشروں کے لئے قلب اور امام کو خلق نہیں کیا ہے؟



1 2 3 4 next