حضرت زهرا (س) اور حضرت علی(ع) کی ازواجی زندگی




Deprecated: Function eregi_replace() is deprecated in /home/urdalshia/public_html/page.php on line 99

Deprecated: Function split() is deprecated in /home/urdalshia/public_html/page.php on line 103

 

حضرت زھرا(س) نے ایسی عظیم شخصیت کے گھر میں زندگی گذاری ھے جو رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ھر لحاظ سے دنیا کی سب سے عظیم شخصیت کے حامل تھے ایسی شخصیت جن کا عھدہ و منصب اور کل ھمّ وغم اسلام کی علمبرداری اور اس کا دفاع کرنا تھا۔

اس دور کی سیاسی صورتحال اتنی نازک اور حساس تھی کہ اسلامی لشکر کو ھر لمحہ کسی نہ کسی طرف سے حملہ کا خطرہ لاحق رہتا تھا، اور اسے ھر سال متعدد جنگوں کا سامنا کرنا پڑرھا تھا جن میں اکثر جنگوں میں امیر المومنین(علیہ السلام) نے شرکت فرمائی تھی۔ 

جناب فاطمہ(س) نے اپنے گھر میں لطف و محبت اور گھریلو کام کاج اور دوسرے ضروریات زندگی کوفراھم کر کے اس مشترک گھر کے ماحول اور اس کی فضا کو ھمیشہ خوشگوار بنائے رکھا اور اس طرح آپ حضرت علی(علیہم السلام) کے جھاد میں برابر سے شریک رھیں کیونکہ” عورت کا جھاد شوھر کی بہترین خدمت کرنا ھے“۔ جیسا کہ حدیث میں وارد ھوا ھے۔ [1]

حضرت علی(علیہم السلام) کو جوش شجاعت دلانا، ان کی شجاعت وبھادری اور ایثار و قربانی کی تعریف کرنا، آئندہ جنگوں کےلئے ان کی حوصلہ افزائی، ان کے زخموں کی مرھم پٹی، مصیبتوں کا ازالہ،اور انھیں تھکن کا احساس نہ ھونے دینا یہ سب بھی آپ ھی کے کارنامے ھیں یھاں تک کہ آپ کے بارے میں حضرت علی(علیہم السلام) نے یہ فرما دیا:”ولقد کنت اٴنظر الیھا فتنجلی عنّی الغموم و الاٴحزان بنظرتی إلیھا“”جب میں فاطمہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف دیکھتا تھا تو ان پر نظر پڑتے ھی میرے تمام ھمّ و غم دور ھوجاتے تھے۔ [2]

آپ کو اپنی ازدواجی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے والھانہ شوق تھا، آپ نے ایک دن بھی اپنے شوھر کی اجازت کے بغیر گھر سے باھر قدم نھیں نکالا، نہ کبھی ان سے ناراض ھوئیں اور نہ ھی کسی قسم کے حیلہ و حوالہ سے کام لیا نہ کسی معاملہ میں ان کی نافرمانی کی، یھی وجہ تھی کہ حضرت علی(علیہم السلام) بھی آپ کا اُسی طرح احترام کرتے تھے کیونکہ آپ شہزادی کے مرتبہ و منزلت سے بخوبی واقف تھے، جس کی تائید آپ کے ان الفاظ میں موجود ھے”فوالله ما اٴغضبتھا و لا اٴکربتھا من بعد ذلک حتی قبضھا الله إلیہ،و لا عصت لی اٴمرا“ ” اللہ کی قسم شادی کے بعد میں نے انھیں نہ کبھی ناراض کیا اور نہ ھی کوئی اذیت دی، یھاں تک کہ انھیں اللہ نے اپنی بارگاہ میں بلا لیا، اس طرح نہ انھوں نے کبھی مجھے ناراض کیا اور نہ ھی میری نافرمانی کی۔ [3]

پھر امام(علیہم السلام) نے جناب فاطمہ (س) کی زندگی کے آخری لمحات میں ان کی اس وصیت کا تذکرہ فرمایا جس میں آپ نے یہ فرمایا تھا:”یا ابن عمّ! ما عھد تنی کاذبة و لا خائنة، و لا خالفتک منذ عاشرتنی“ اے ابن عم! آپ نے مجھ سے جھوٹا وعدہ نھیں کیا اور نہ کبھی کوئی خیانت کی اور جب سے میں آپ کے ساتھ زندگی بسر کر رھی ھوں میں نے آپ کی مخالفت نھیں کی، مولائے کائنات(علیہم السلام) نے فرمایا:” معاذ الله، اٴنتِ اٴعلم بالله و اٴبرّ و اٴتقٰی و اٴکرم و اٴشدّ خوفاً منہ، و الله جدّدت علیّ مصیبة رسول الله(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و قد عظمت وفاتکِ و فقدک،فإنّا لله و إنّا الیہ راجعون“ معاذ اللہ:(یہ کیسے ھوسکتا ھے)تم اللہ کی بیحد معرفت رکھنے والی، نھایت نیک، متقی، کریم النفس اور اس سے حد درجہ خوف رکھنے والی ھو، اللہ کی قسم تم نے میرے لئے رسول اللہ کی مصیبت تازہ کر دی ھے اور تمھاری وفات اور جدائی بہت عظیم ھے، اور ھم تو اللہ کےلئے ھیں اور اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ھیں۔  [4]

ابو سعید خدری کہتے ھیں: ایک دن صبح کے وقت حضرت علی(علیہم السلام) بالکل بھوکے تھے، تو آپ نے شہزادی سے کھا:” یا فاطمة ھل عندک شیء تغذینیہ “اے فاطمہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا تمھارے پاس کھانے کےلئے کوئی چیز ھے؟ تو آپ نے کھا:”لاوالذی اٴکرم اٴبی بالنبوة واٴکرمک بالوصیة مااٴصبح الغداة عندی شیء وماکان شیء اُطعمناہ مذ یومین إلّا شیء کنت اُؤثرک بہ علی نفسی وعلی ابنیّ(ہذین الحسن والحسین)“” نھیں “ اس ذات کی قسم جس نے میرے والد بزرگوار کو نبوت کے ذریعہ شرف بخشا اور آپ کو وصایت کے ذریعہ شرف عطاکیا، آج صبح سے ھمارے گھر میں کوئی غذا نھیں ھے اور پورے دو دن ھوگئے ھیں میں نے کچھ نھیں کھایا بلکہ گھر میں جو کچھ تھا وہ میں آپ کو اور اپنے ان دونوں(حسن(علیہم السلام) و حسین(علیہم السلام)) کو کھلا رھی تھی“ آپ نے کھا:”یا فاطمة اٴلا کنت اٴعلمتنی فاٴبغیکم شیئاً“  

   اے فاطمہ(س)! تم نے مجھے کیوں نھیں بتایا، تاکہ میں تمھارے لئے کسی چیز کا انتظام کردیتا، تو شہزادی نے کھا:”یااٴباالحسن إنّی لاٴ ستحی من إلھی اٴن اٴکلّف نفسک ما لا تقدر علیہ“ مجھے خدا سے شرم آتی ھے کہ میں آپ کو اس بات کی زحمت دوں کہ جو آپ کےلئے ممکن نھیں ھے۔ [5]

مختصر یہ کہ اسلام کے ان دونوں نمونہٴ عمل زوجہ و شوھر نے اس طرح ایک خوشگوار زندگی گذاری، اور اپنے اپنے فرائض کو بخوبی ادا کیا کہ اعلیٰ اسلامی اخلاق و اقدار کےلئے ایک ضرب المثل بن گئے اور بھلا ایسا کیوں نہ ھوتا؟ کہ جب شب عروسی میں ھی پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مولائے کائنات(علیہم السلام) سے یہ فرمادیا تھا:”یاعلی نِعم الزوجة زوجتک“ اے علی(علیہم السلام) تمھاری بیوی بہترین زوجہ ھے اور شہزادی دو عالم سے یہ کہہ دیا تھا:  ”یافاطمة نعم البعل بعلُک“ اے فاطمہ(س) تمھارا شوھر سب سے بہترین شوھر ھے۔  [6]



1 2 next