امامت ائمۂ اطهار عليهم السلام کی نگاه ميں



" یاکمیل! اِنَّ ھٰذہِ الۡقُلُوبَ اَوۡ عِیَۃٌ فَخَیرُھَا اَوۡ عَاھَا فَاحۡفَظۡ عَنِّی مَا اَقُولُ لَکَ"

" اے کمیل! اولاد آدم علیہ السلام کے دل ظرف کے مانند هیں اور بہترین ظرف وہ هے جو کسی چیز کو اپنے اندر محفوظ رکھے (یعنی اس میں سوراخ نہ هو) لہٰذا میں تم سے جو کچھ کہتا هوں اسے محفوظ کر لو"۔

پہلے آپ نے انسانوں کو تین گروهوں میں تقسیم فرمایا:۔

" النَّاسُ ثَلاثَۃٌ: فَعَالِمٌ رَبَّانِی وَ مُتَعَلِّمٌ فِیۡ سَبِیۡلِ نِجَاۃٍ وَ ھَمَجٌ رعاعٌ"۔

" انسان تین قسم کے هیں:ایک گروہ علمائے ربانی کا هے (البتہ حضرت علی (علیہ السلام) کی اصطلاح میں عالم ربّانی سے مراد ہر وہ عالم ربّانی نهیں هے جو ہم ہر ایک کو تکلّفاً کہہ دیا کرتے هیں، بلکہ اس سے مراد ایسا عالم هے جو واقعاً صد فی صد الہٰی هو اور خالص خدا کے لئے عمل کرتا هو اور شاید یہ تعبیر سوائے انبیاء و ائمہ علیھم السلام کے کسی اور پر صادق نهیں آتی) " وَمُتَعَلِّمٌ علی سبیل نجاۃٌ " (چونکہ اس عالم کو اس متعلم کے مقابل میں ذکر کیا هے لہٰذا اُس سے مقصود وہ عالم هے جو کسی بشر سے علم حاصل نهیں کرتا) یہ دوسرا گروہ اُن سے علم حاصل کرنے والوں اور شاگردوں کا هے۔ ان لوگوں کو هے جو ان علماء سے استفادہ کرتے هیں۔ تیسرے گروہ کے لوگ "ھمیج رعاع" هیں (اس کی تشریح یہ هے ) کہ:" لَمۡ یَسۡتَضِیۡئُوا بِنورِ الۡعِلۡمِ وَلَمۡ یَلۡجَأوۡا اِلَیٰ رُکۡنٍ وَثِیۡقٍ" جنهوں نے علم کے نور سے نہ کوئی روشنی حاصل کی هے اور نہ کسی محکم ستون کا سہارا حاصل کیا هے۔"

 Ø§Ø³ Ú©Û’ بعد آپ Ù†Û’ اہل زمانہ کا گلہ کرنا شروع کیا۔ فرمایا میں بہت سے علوم اپنے سینہ میں رکھتا هوں۔ لیکن مجھے کوئی ایسا شخص نهیں ملتا جس میں  (انهیں حاصل کرنے Ú©ÛŒ)  صلاحیت موجود هو۔ آپ علیہ السلام Ù†Û’ لوگوں Ú©ÛŒ گروہ بندی کرتے هوئے فرمایا، ایسے لوگ بھی هیں جو زیرک اور عقلمند هیں لیکن ایسے زیرک هیں کہ جو Ú©Ú†Ú¾ حاصل کرتے هیں اس سے اپنے لئے فائدہ حاصل کرنا چاہتے هیں یعنی دین Ú©Ùˆ اپنی دنیا Ú©Û’ لئے استعمال کرنا چاہتے هیں۔ لہٰذا میں ان سے پر هیز کرنے پر مجبور هوں۔ Ú©Ú†Ú¾ دوسرے افراد هیں جو اچھے اور نیک تو هیں لیکن احمق هیں۔ وہ Ú©Ú†Ú¾ حاصل Ù‡ÛŒ نهیں کرتے یا اگر حاصل بھی کرتے هیں تو ایک دم اُلٹا اور غلط مطلب سمجھ بیٹھتے هیں۔ یہاں تک تو امام علیہ السلام Ú©ÛŒ گفتگو مایوسانہ رنگ لئے هوئے Ù‡Û’ (کیونکہ اس سے اندازہ هوتا Ù‡Û’ ) کہ کوئی اہل موجود نهیں Ù‡Û’Û” لیکن اس Ú©Û’ بعد فرماتے هیں :" اللّٰھُمَّ بَلَٰی…… " نهیں ایسا بھی نهیں Ù‡Û’ کہ کوئی شخص موجود نہ هو۔ میں تو یہ جو Ú©Ú†Ú¾ کہہ رہا هوں لوگوں Ú©ÛŒ اکثریت Ú©Ùˆ کہہ رهو هوں (یہاں آقائے بروجردی فرماتے تھے کہ حضرت علیہ السلام Ù†Û’ یہ اشارہ بصرہ میں ایک خطبہ Ú©Û’ ذیل میں فرمایا تھا، ورنہ یہ کمیل Ú©Û’ ساتھ هونے والی گفتگو میں بھی موجود Ù‡Û’)Û”

اَللّٰھُمَّ بَلٰی لَا تَخۡلُو الۡارضُ مِن قائم للہِ بِحُحَّۃٍ اِمَّا ظَاہِراً مَّشۡھُوۡراً وَاِمَّاخَائِفاً مغموراً لِئَلَّا تَبۡطِلُ حُجَجُ اللہِ وَ بَیِّناتہُ وَکَمۡ ذا وَاَیۡنَ؟ اُوۡلئکَ وَاللہ۔ الاَقَلُّونَ عَدَداً وَ الاَعۡظَمُوۡنَ عِنۡدَاللہِ قَدۡراً، یَحۡفَظُ اللہُ بِھِمۡ حُجَجَہ وَبَیِّنَاتَہ حَتَّیٰ یُوۡدِعُوۡھَا نُظَرَائَھُم وَیَزۡرَعُوۡھَا فِی قُلوبِ اَشۡبَاھِھِمۡ ھَجَمَ بِھِمۡ العِلۡمُ علٰی حَقِیۡقَۃِ البَصِیۡرَۃ وَبَا شَرُوا رُوۡحُ الیَقِیۡنِ وَاسۡتَلَانوا مَااسۡتَعۡوَرَہ الۡمُتۡرَفُوۡنَ وَاَنِسُوۡا بِمَا اسۡتَوۡحِشَ مِنۡہُ الجَاھِلُونَ وَ صَحِبُوا الدُّنۡیَا بِاَیۡدَانٍ اَرۡوَاحُھَا مُعَلّقَۃٌ بِالۡمحَلِّ الۡاَعۡلیٰ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:ہاں، زمین ہر گز حجّت خدا سے خالی نهیں هے۔ اب چاهے یہ حجت ظاہر هو اور لوگوں کے درمیان هو یا مستور اور پوشیدہ یعنی موجود تو هو، لیکن لوگ اسے دیکھ نہ پائیں، وہ نگاہ سے پوشیدہ هو۔ ان هی حجتوں کے ذریعہ خداوند عالم اپنی دلیلیں اور نشانیاں لوگوں کے درمیان محفوظ رکھتا هے۔ اور یہ لوگ بھی جو کچھ جانتے هیں اس کے بیج اپنے هی جیسے افراد کے دلوں میں بو دیتے هیں اور گزر جاتے هیں۔ ایسا نهیں هے کہ یہ امانتیں ان کے حوالہ نہ کریں اور چلے جائیں یعنی ایسا نهیں هے کہ میرے پاس جو کچھ هے اسے بیان کئے بغیر چلا جاؤں گا۔ اس کے بعد حضرت علیہ السلام ان افراد سے متعلق جو ایک ملکوتی مبدأ و مرکز سے استفادہ کرتے هیں۔ فرماتے هیں: ھَجَمَ بِھِمُ العِلۡمُ عَلَٰی حَقِیۡقَۃِ الۡبَصِیۡرَۃِ خود علم ان پر ہجوم کرتا هے اور ٹوٹ کر برستا هے۔ وہ علم کی طرف نهیں بڑھتے۔ (مطلب یہ هے کہ ان کا علم تفویضی هے) اور وہ علم جو ان پر ہجوم کرتا هے، انهیں حقیقی معنوں میں بصیرت عطا کرتا هے یعنی اس علم میں کوئی اشتباہ، نقص یا خطا نهیں پائی جاتی۔ " وَبَاشَرُوا رُوحَ الۡیَقِیۡنِ" وہ روح یقین کو متصل رکھتے هیں۔ مطلب یہ هے کہ وہ عالم دیگر سے بھی ایک طرح کا ارتباط و اتصال رکھتے هیں۔ " وَاسۡتَلَانُوا مَا اسۡتَعورَۃ الۡمُتۡرَفُوۡنَ" وہ چیزیں جنھیں مترف (یعنی اہل عیش و طرب) اپنے لئے بہت دشوار سمجھتے هیں ان کے لئے آسان هیں۔ مثلاً عیش و عشرت کے عادی افراد کا گھنٹہ بھر اپنے خدا سے لو لگانا اور اس سے راز و نیاز کی باتیں کرنا گویا سب سے زیادہ دشوار کام هے۔ لیکن ان کے لئے یہ کام آسان هی نهیں بلکہ ان کا پسندیدہ عمل هے۔"وَاُنِسُوۡا بِما اسۡتَوۡحَشَ مِنۡہ الۡجَاھِلُوۡن" جن چیزوں سے نادان اور جاہل افراد وحشت کرتے هیں یہ ان سے مانوس هیں۔

" وَصَحِبُوا الدُّنۡیَا بِاَبۡدَانٍ اَرۡوَاحُھَا مُعَلَّقۃ بِالۡمَحَلِّ الۡاَعۡلٰیٰ"

اپنے جسموں کے ساتھ لوگوں کے ہمراہ رہتے هیں جبکہ اسی وقت ان کی روحیں مقامِ اعلیٰ سے تعلق و اتصال رکھتی هیں۔ یعنی ان کا جسم لوگوں کے ساتھ هے لیکن ان کی روح یہاں نهیں هے، جو لوگ ان کے ہمراہ هیں انهیں اپنے هی جیسا انسان سمجھتے هیں اور ان میں اور اپنے آپ میں کوئی فرق نهیں سمجھتے، لیکن وہ یہ نهیں جانتے کہ اس ( انسانِ کامل ) کا باطن کسی اور عالم سے وابستہ هے۔



back 1 2 3 4 5 next