امامت ائمۂ اطهار عليهم السلام کی نگاه ميں



بہر حال امامت کا اصل فلسفہ یهی هے۔ یهی وجہ هے کہ کتاب" کافی" میں" باب الحجۃ" کے عنوان سے ایک مستقل باب موجود هے۔ اور اس میں ملتا هے کہ اگر دنیا میں صرف دو انسان باقی رهیں تو ان میں کا ایک اسی طرح کا انسان هوگا جس طرح دنیا کا پہلا انسان اسی منصب پر فائز تھا ہم اس فلسفہ کی روح کو لوگوں کے ذہنوں سے مزید قریب کرنے کے لئے اور اس حقیقت سے زیادہ آشنا کرنے کے لئے "اصول کافی" سے" کتاب الحجۃ" کی بعض روایتیں اور حدیثیں آپ کی خدمت میں پیش کرتے هیں۔ اس مسئلہ سے متعلق تمام دوسرے مسائل مثلاً معاشرہ میں امام کا وجود ضروری هے تاکہ وہ لوگوں پر عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرے، یا دینی امور میں لوگوں کے درمیان پیدا هونے والے اختلافات کو حل کرسکے۔ یہ سب باتیں اس اصل مسئلہ میں طفیلی کی حیثیت رکھتی هیں۔ ایسا نهیں هے کہ امام کو لوگوں پر حکومت کرنے کے لئے امام قرار دیا جائے اور بس، بلکہ یہ مسئلہ ان تمام باتوں سے کهیں بالاتر هے۔ یہ باتیں گویا امام کے" فوائد جاریہ" یعنی اس کے وجود کے نتیجہ میں مرتب هونے والے فوائد کی حیثیت رکھتی هیں۔ ہم ہر حدیث سے کچھ جملے منتخب کرکے آپ کی خدمت میں عرض کرتے هیں تاکہ فلسفۂ امامت کی حقیقت پورے طور سے واضح هوجائے۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے ایک روایت

یہ روایت انبیاء و مرسلین سے متعلق هے۔ ایک زندیق (مادہ پرست) نے امام صادق(علیہ السلام) سے سوال کیا کہ:"مِنۡ اَیۡنَ اَثۡبَتَّ الۡاَنبِیَاء وَالرُّسُلَ؟" آپ انبیاء علیھم السلام و رسل کو کس دلیل سے ثابت کرتے هیں؟ امام نے جواب میں مسئلۂ توحید کو بنیاد قرار دیتے هوئے فرمایا:

" اِنّا اَثۡبَتۡنا اَنّ لَنَا خَالِقاً صَانِعاً متَعَالیاًً عَنّا وَعَنۡ جَمِیۡع مَا خَلَقَ وکانَ ذٰلکَ الصَّانِع حَکِیماً متَعَالیاً لَم یَجُز اَن یشاھِدَہ خَلۡقُہ وَلَا یلا مِسُوہُ فیباشرھم وَیُبَاشِروۡہ وَ یُحَاجَھُمۡ وَیُحَاجَّوۡہُ ثَبَتَ اَنّ لَہ سُفَراء فی خَلۡقِہِ یُعَبِّرُوۡنَ عَنۡہُ اِلیٰ خَلۡقِہ وَعِبَادِہ وَیَدُلُّونَھُمۡ علیٰ مَصَالِحِھِمۡ وَمَنَافِعِھِم وَمَا بِہ بَقَائُھُمۡ وَفی تَرۡکِہ فَنَائُھُمۡ فَثَبَتَ الۡآمِروۡنَ وَالنَّاھُوۡن عَنِ الحَکِیمِ العَلِیۡم فِی خَلۡقِہ"……

مختصر یہ هےکہ انبیاء و رسل کے ثابت کرنے کی بنیاد، اپنی تمام الٰهی شان و صفات کے ساتھ خود اللہ کے اثبات پر موقوف هے جب ہم نے یہ جان لیا کہ ہمارا کوئی خالق و صانع هے جو حکیم هے اور ہم سے اعلیٰ و ارفع هے یعنی ہم اپنے حواس و ادراک کے ذریعہ اس سے براہ راست ارتباط پیدا نهیں کرسکتے۔ نہ اس کا مشاہدہ کرسکتے هیں اور نہ اسے چھو سکتے هیں اور نہ ھی اس سے دو بدو سوال و جواب کرسکتے هیں جبکہ ہم اس کے محتاج هیں کہ وہ ہماری راہنمائی کرے۔ کیونکہ فقط وهی حقیقی حکیم و دانا هے اور ہمارے واقعی مصالح و مفادات سے آگاہ هے۔ لہٰذا ایسے وجود کا هونا ضروری هے جو بیک وقت دو پہلؤوں کا حامل هو: ایک طرف وہ خدا سے ارتباط رکھتا هو یعنی اس پر وحی نازل هوتی هو اور دوسری طرف ہم اس سے رابطہ قائم کرسکتے هوں۔ اور ایسے افراد کا هونا لازم و واجب هے۔

اس کے بعد امام علیہ السلام ان افراد کے بارہ میں فرماتے هیں:" حکماء مؤدبین بالحکمۃ" خود ان لوگوں کو حکیم دانا هونا چاهیئے۔ وہ حکمت کی بنیاد پر مؤدب و مہذب کئے گئے هوں۔" مبعوثین بھا" اور حکمت هی پر مبعوث کئے گئے هوں یعنی ان کی دعوت اور ان کا پیغام حکمت پر مبنی هو۔ "غَیۡرُ مشارکین لِلناسِ عَلَیٰ مشارکتھِِم لَھُمۡ فی الۡخَلقِ۔" اگر چہ وہ خلقت کے اعتبار سے انسانوں میں شریک هوں لیکن بعض جہات میں لوگوں سے الگ اور جدا هوں۔ ایک انفرادی پہلو اور امتیازی روح ان میں پائی جاتی هو۔"مُؤَیَّدِیۡنَ مِنۡ عِنۡدَالحَکیمِ الۡعَلیم بِالۡحِکمَۃ" خدا ئے حکیم و علیم کی جانب سے حکمت کی بنیاد پر ان کی تائید کی گئی هو۔"ثمَّ ثَبَتَ ذٰلِکَ فِی کُلِّ دھرٍ وَمَکَانٍ" ایسے واسطوں اور ذریعوں کا وجود ہر زمانہ اور ھر عہد میں لازمی و ضروری هے۔ "لِکَیۡلَا تخلُوالۡاَرۡض مِن حُجَّۃٍ یَکُوۡنُ مَعَہ عَلَم یَدُلُّ علیٰ صِدۡقِ مَقَالَتِہ وَ جواز عَدَالَتِہ" تاکہ زمین کسی وقت بھی ایسی حجت سے خالی نہ رهے جس کے پاس اس کی صداقت گفتار اور اس کی عدالت و رفتار کے ثبوت میں کوئی علم ( دلیل یا معجزہ ) موجود هو۔

زید بن علی علیہ السلام اور مسئلہ امامت

زید ابن علی ابن الحسین علیہ السلام امام محمد باقر(ع ) کے بھائی هیں اور صالح و محترم شخص هیں۔ ہمارے ائمہ(علیہم السلام) نے آپ کی اور آپ کے مجاہدانہ اقدام کی تعریف کی هے۔ اس سلسلہ میں اختلاف هے کہ جناب زید واقعاً خود اپنے لئے خلافت کے مدعی تھے یا صرف امر بالمعروف اور نهی عن المنکر کے فرائض انجام دے رهے تھے اور خود خلافت کے دعویدار نهیں تھے بلکہ آپ امام محمد باقر (علیہ السلام) کی خلافت کے خواہاں تھے، یہ بہر حال مسلم هے کہ ہمارے ائمہ(علیہم السلام) نے آپ کی تعریف و توصیف کی هے اور آپ کو شهید کہا هے۔ اور یهی ان کی عظمت کے لئے کافی هےکہ: "مَضیٰ وَاللہِ شھِیداً " وہ شهید هوکر دنیا سے اٹھے لیکن بحث اس بات پر هے کہ آپ خود اس مسئلہ (امامت) میں شبہ کا شکار تھے یا نهیں؟ جو روایت اس وقت میں آپ کی خدمت میں پیش کررہا هوں اس سے یہ ظاہر هوتا هے کہ آپ خود اس سلسلہ میں شبہ میں مبتلا تھے۔ اب یہ بات کہ ایسا شخص اس مسئلہ میں شبہ کا شکار کیسے هوسکتا هے۔ یہ ایک دوسری بحث هے۔

امام محمد باقر (علیه السلام) کے ایک صحابی ابوجعفر احول بیان کرتے هیں: جس وقت زید بن علی مخفی تھے انهوں نے میرے پاس پیغام بھیجا اور مجھ سے فرمایا کہ اگر ہم میں سے کوئی جہاد کے لئے قیام کرے تو کیا تم ہماری مدد کے لئے آمادہ هو؟ میں نے جواب دیا اگر آپ کے پدر بزرگوار اور بھائی (حضرت امام زین العابدین(علیہ السلام) اور امام محمد باقر (علیہ السلام) اجازت دیں تو میں حاضر هوں ورنہ نهیں۔ زید نے فرمایا، میں خود قیام کا ارادہ رکھتا هوں۔ بھائی سے کوئی مطلب نهیں هے۔ کیا اب بھی تم ہماری حمایت پر آمادہ هو؟ میں نے عرض کیا نهیں۔ آپ نے پوچھا کیوں؟ کیا تم ہمارے سلسلہ میں اپنی جان سے دریغ کرتے هو؟ میں نے عرض کیا:اِنَّمَا ھِیَ نَفۡس وَاحِدۃ فَاِن کانَ اللہ فی الارض حجَّۃ فَا لۡمُتَخَلِّفُ عَنکَ ناجٍ وَالخارجُ مَعَکَ ھَالِکٌ وَاِن لَا تکُنۡ للہِ حُجَّۃٌ فِی الاَرۡض فَا لۡمُتَخَلِّفُ عَنکَ وَالخَارجُ مَعَکَ سَوَاءٌ" میں ایک هی جان رکھتا هوں اور آپ بھی حجت خدا هونے کا دعویٰ نهیں کرتے۔ اگر زمین پر آپ کے علاوہ کوئی حجت خدا هے تو جو شخص آپ کے ساتھ قیام کرے اس نے خود کو ضائع کیا بلکہ ہلاک هوا اور جس نے آپ سے انکار کیا اس نے نجات پائی لیکن اگر زمین پر کوئی حجت خدا نہ هو تو میں چاهے آپ کے ساتھ قیام کروں یا نہ کروں دونوں باتیں برابر هیں۔

ابو جعفر احول جانتے تھے کہ زید کا مقصد کیا هے۔ لہٰذا وہ اس حدیث کے ذریعہ یہ واضح کرنا چاہتے تھے کہ اس وقت روئے زمین پر ایک "حجت" موجود هے۔ اور وہ آپ کے بھائی امام محمد باقر (علیہ السلام) هیں۔ آپ نهیں هیں۔ یہاں روایت میں حضرت زید کی گفتگو کا خلاصہ یہ کہ ھے، تمهیں یہ بات کیسے معلوم هوئی جبکہ امام کا فرزند هوتے هوئے اس نکتہ سے واقف نهیں هوں اور میرے پدر بزرگوار نے بھی مجھے نهیں بتایا؟ کیا میرے بابا مجھے چاہتے نهیں تھے؟ خدا کی قسم میرے بابا مجھے اس قدر چاہتے تھے کہ مجھے بچپن میں دستر خوان پر اپنی آغوش میں بٹھاتے تھے اور اگر نوالہ گرم هوتا تھا تو پہلے اسے ٹھنڈا کرتے تھے اس کے بعد کھلاتے تھے تا کہ میرا دہن نہ جلنے پائے وہ باپ جو مجھ سے اس قدر محبت کرتا تھا کہ اسے ایک لقمہ کے ذریعہ میرا دہن جلنا گوارہ نہ تھا۔ کیا اس نے اتنی اہم بات جسے تم سمجھے هو، مجھے بتانے سے مضائقہ کیا تاکہ میں جہنم کی آگ سے محفوظ رهوں؟ (ابوجعفر احول نے) جواب دیا۔ انهوں نے آپ کو جہنم کی آگ سے محفوظ رکھنے کے لئے هی نهیں بتایا۔ چونکہ وہ آپ کو بہت چاہتے تھے اس لئے آپ کو نهیں بتایا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر میں کہہ دوں گا تو آپ انکار کریں گے اور جہنمی هوجائیں گے چونکہ وہ آپ کی طبیعت کی تیزی سے واقف تھے لہٰذا آپ سے بتانا نهیں چاہا۔ اور یهی بہتر سمجھا کہ آپ لاعلمی کی حالت پر باقی رهیں تاکہ کم از کم آپ میں عناد نہ پیدا هونے پائے لیکن یہ بات مجھ سے فرمادی تاکہ اسے قبول کرکے نجات حاصل کرلوں یا انکار کر کے جہنمی بن جاؤں…۔ اور میں نے بھی اسے قبول کرلیا۔

اس کے بعد میں نے زید سے دریافت کیا:"اَنۡتُم اَفۡضَل اَمِ الۡاَنۡبیاء” آپ افضل هیں یا انبیاء؟ فرمایا انبیاء۔"قلتُ یَقولُ یعقوبُ لِیُوسُفَ یابُنَیَّ لَاتَقۡصُصُ رُؤیاکَ عَلیٰ اِخۡوَتِکَ فَیَکِیۡدُو لَکَ کیۡداً" میں نے عرض کیا یعقوب علیہ السلام جو پیغمبر هیں اپنے بیٹے یوسف علیہ السلام سے جو خود بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے جانشین هیں، کہتے هیں کہ اپنا خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا۔ آیا یعقوب علیہ السلام کا یہ حکم یوسف علیہ السلام کے بھائیوں سے دشمنی کی بنا پر تھا یا ان کی اور یوسف علیہ السلام کی دوستی کی بنیاد پر تھا چونکہ وہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی طبیعت سے واقف تھے کہ اگر وہ سمجھ گئے کہ یوسف علیہ السلم اس مقام و منزلت پر فائز هونے والے هیں تو ابھی سے ان کی دشمنی پر کمر بستہ هوجائیں گے"۔آپ کے ساتھ آپ کے پدر بزرگوار اور بھائی کا قصہ بالکل یعقوب علیہ السلام و یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں جیسا هے۔

گفتگو کے اس مرحلہ پر آکر زید بالکل خاموش هوگئے اور کچھ جواب نہ دے سکے۔ تھوڑی دیر کے بعد انهوں نے فرمایا:"اَمَا واللہِ لَاِنۡ قُلۡتَ ذٰلِکَ" اب جبکہ تم مجھ سے یہ بات کہہ رهے هو تو میں بھی تمهیں یہ بتادوں کہ:لَقَدۡ حَدّثَنی صَاحِبُکَ بِالۡمدیۡنَۃِ"تماہرے آقا (یہاں مراد امام هیں تمہارے امام یعنی میرے بھائی امام محمد باقر (علیہ السلام) نے مدینہ میں مجھ سے فرمایا:"انی اُقتل واُصلَب بِالکناسَۃِ" کہ تمهیں قتل کیا جائےگا اور کانسۂ کوفہ پر سولی دی جائے گی۔"وَانَّ عِنۡدَہ لصحیفۃ فیھا قتلی وصلبی" اور ان کے پاس ایک صحیفہ (کتاب) هے جس میں میرے قتل کئے جانے اور دار پر چڑھائے جانے کا ذکر هے۔



back 1 2 3 4 5 next