امامت ائمۂ اطهار عليهم السلام کی نگاه ميں



یہاں زید، ابوجعفر کے سامنے ایک دوسرا ورق الٹتے هیں کیونکہ یک بیک بات ایک دم بدل جاتی هے اور وہ دوسرے نظریہ کی تائید کرتے نظر آتے هیں۔ معلوم هوا کہ اس سے قبل جو باتیں آپ ابوجعفر سے فرمارهے تھے گویا اس سے اپنے آپ کو پنہاں رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن جب یہ دیکھا کہ ابوجعفر مسئلہ امامت کے سلسلہ میں اس قدر راسخ الاعتقاد هیں تو خود سے فرمایا کہ کہ ان کو بتادوں کہ میں بھی اس نکتہ سے غافل نهیں هوں۔ وہ کهیں شبہ کا شکار نہ هوں، میں بھی اس مسئلہ کو نہ صرف جانتا هوں بلکہ اس کا اعتراف و اعتقاد بھی رکھتا هوں۔ گفتگو کے آخری جملہ میں اسی مطلب کا اظہار هے کہ میں پورے علم و ارادہ کے ساتھ نیز اپنے بھائی کے حکم سے جہاد کے لئے اٹھ رہا هوں۔ یہاں تک کہ (ابو جعفر) کہتے هیں کہ اس گفتگو کے بعد ایک سال میں مکہ مکرمہ گیا اور وہاں میں نے یہ پورا واقعہ حضرت امام صادق (علیہ السلام) سے بیان کیا۔ حضرت نے بھی میرے نظریات کی تائید کی۔

حضرت امام صادق (علیہ السلام) سے دو اور حدیثیں

امام علیہ السلام ایک دوسری حدیث میں فرماتے هیں: "اِنَّ الاَرۡضَ لَاتَخۡلُوا لَّا وَفِیھَا اِمَامٌ " زمین کبھی بھی امام سے خالی نهیں رہتی۔ نیز حضرت علیہ السلام سے ایک اور حدیث نقل هے: "لَوۡ بقیٰ اثنان لکانَ اَحَدُھُمَا الحُجَّۃ علیٰ صَاحِبہِ" اگر روئے زمین پر دو شخص بھی باقی رهیں تو ان میں کا ایک اپنے ساتھی پر خدا کی حجّت هوگا۔

حضرت امام رضا(علیہ السلام) سے ایک روایت

اس سلسلہ میں ہمارے یہاں بہت سی حدیثیں موجود هیں۔ایک مفصل روایت جو امام رضا (علیہ السلام) سے مروی هے ملاحظہ فرمائیں۔ عبد العزیز بن مسلم کا بیان هے کہ:"کنَّا معَ الرّضَا عَلَیہِ السَّلامِ بمَرو فَاجۡتَمَعۡنا فِی الۡجَامِع یَومِ الجمعَۃ فی بدءِ مَقۡدَمِنا" ہم مرو میں امام رضا علیہ السلام کے ہمراہ تھے (یہ اس سفر کی بات هے جب امام علیہ السلام ولی عہدی کے سلسلہ میں خراسان لے جائے جارهے تھے) جمعہ کے دن ہم مرو کی جامع مسجد میں بیٹھتے تھے اور امام جماعت موجود نهیں تھا لوگ جمع هوکر مسئلہ امامت گفتگو کررهے تھے۔ اس کے بعد وہاں سے اٹھ کر امام کی خدمت میں حاضر هوا اور ان سے ساری باتیں بیان کردیں۔ امام نے تمسخر آمیز تبسم فرمایا کہ آخر یہ لوگ کیا سوچتے هیں:! یہ لوگ در اصل موضوع (امامت) کو هی نهیں سمجھتے اس کے بعد امام نے فرمایا:"جَھلِ القَوم وَخُدِعُوا عَن اٰرائِھِمۡ" یہ لوگ جاہل هیں اور انهوں نے اپنے افکار و عقائد میں دھوکہ کھایا هے خدا وند عالم نے اپنے پیغمبر(ص) کو اس وقت تک نهیں اٹھایا جب تک دین کامل نهیں هوا۔ اس نے قرآن نازل فرمایا جس میں حلال، حرام، حدود و احکام اور وہ تمام باتیں جن کی دین کے سلسلہ میں انسان کو ضرورت هے سب بیان کردی اور اعلان کردیا: "مَافَرَّطۡنَا فی الۡکِتَابِ مِنۡ شیٔ" ہم نے اس کتاب (قرآن مجید) میں کسی بھی چیز کو نهیں چھوڑا هے یعنی سب کچھ بیان کردیا هے (اس سے مراد حلال و حرام سے متعلق قرآن کے احکام اور انسانوں کے تمام فرائض هیں) اپنی حیات طیبہ کے آخری ایام میں پیغمبر اسلام(ص) نے حجۃُ الوداع کے موقع پر اس آیت کی تلاوت بھی فرمائی:"الیَومَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دینکُمۡ وَاَتۡمَمۡتُ عَلَیکُمۡ نِعۡمَتِی وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡناً"یعنی آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے کامل کردیا تم پر اپنی نعمتیں تمام کردیں اور تمہارے لئے اسلام سے راضی هوگیا۔ اس کے بعد حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا"وَاَمۡرُ الۡاِمَامَۃِ مِن تَمامِ الدّینِ" اور مسئلہ امامت دین کوتمام اور کامل کرنے والے مسائل میں سے ایک هے"وَلَمۡ یَمۡضِ حَتیٰ بَیَّنَ لِاُمَّتِہِ مَعَالِم دِیۡنِھُمۡ" پیغمبر اسلام(ص) اس وقت تک تشریف نهیں لے گئے جب تک انهوں نے اپنی امت کے درمیان ہدایت کی نشانیوں کو بیان نہ کردیا اور ان کے لئے دین کی راہ روشن نہ کردی۔"وَاَقَامَ لَھُمۡ عَلِیّاً عَلَماً" اور ان کے لئے علی (علیه السلام) کو راہنما مقرر فرمادیا۔

مختصر یہ کہ قرآن پوری صراحت Ú©Û’ ساتھ فرماتا Ù‡Û’ کہ ہم Ù†Û’ کسی بھی امر Ú©Ùˆ فراموش نهیں کیا۔ اب یہ کہ کیا اس Ù†Û’ تمام جزئیات…… بھی بیان کردیئے؟ یا نهیں: بلکہ فقط کلیات اور اصول بیان کئے هیں اور ان چیزون کا ذکر کیا Ù‡Û’ جن Ú©ÛŒ لوگوں Ú©Ùˆ ضرورت تھی۔ ان Ù‡ÛŒ کلیات Ùˆ اصول میں سے ایک مسئلہ یہ بھی Ù‡Û’ کہ قرآن Ù†Û’(پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Ú©Û’ بعد Ú©Û’ لئے) ایک ایسے انسان  کا تعارف کروا دیا جو قرآن Ú©ÛŒ تفسیر اس Ú©Û’ معانی Ú©ÛŒ وضاحت نیز اس Ú©Û’ کلیات Ú©ÛŒ تشریح سے واقف Ù‡Û’Û” اس کا یہ علم اجتہاد Ú©ÛŒ بنیاد پر نهیں Ù‡Û’Û” جس میں Ú©Ú†Ú¾ باتیں صحیح هوں اور Ú©Ú†Ú¾ غلط (بلکہ وہ علم الٰهی Ú©Û’ ذریعہ ان چیزوں سے آگاہ Ù‡Û’) اور حقیقتت اسلام اس Ú©Û’ پا س محفوط Ù‡Û’Û” پس قرآن یہ جو کہتا Ù‡Û’ کہ ہم Ù†Û’ تمام چیزیں بیان کردیں اس کا مطلب یہ Ù‡Û’ کہ اب کوئی چیز باقی نهیں رہ گئی۔ ہم Ù†Û’ کلیات Ú©Û’ ساتھ ساتھ جزئیات بھی بیان کردیئے هیں اور انهیں ایک "دانا" Ú©Û’ پاس محفوظ کردیا Ú¾Û’Û” اور ہمیشہ اسلام سے آگاہ ایک شخص لوگوں Ú©Û’ درمیان موجود رہتا Ù‡Û’Û” "Ù…ÙŽÙ†Û¡ زَعَمَ اَنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ Ù„ÙŽÙ… یُکۡمِلۡ دِیۡنَہ فَقَد رَدَّ کِتَابَ اللہِ" اگر کوئی شخص یہ Ú©Ù‡Û’ کہ  خدا وند عالم Ù†Û’ اپنا دین کامل نهیں کیا تو اس Ù†Û’ قرآن Ú©Û’ خلاف بات Ú©Ù‡ÛŒ Ù‡Û’ اور جو بھی قرآن Ú©Ùˆ رد کرے کافر Ù‡Û’Û”"ÙˆÙŽÚ¾ÙŽÙ„Û¡ یَعرفون قدر الامامۃ ومحلّھا من الامۃ فیجوز فیھا اختیارھم" جو لوگ کہتے هیں کہ امامت انتخابی Ù‡Û’ کیا وہ جانتے بھی هیں کہ امام Ú©Û’ کیا معنی هیں؟ ان لوگوں Ù†Û’ سمجھ لیا Ù‡Û’ کہ امام کا انتخاب کسی سپہ سالار لشکر Ú©Û’ انتخاب Ú©Û’ مانند Ù‡Û’ØŒ جب کہ امام وہ Ù‡Û’ کہ (جس Ú©ÛŒ تعیین پر) قرآن فرماتا Ù‡Û’ کہ میں Ù†Û’ دین کامل کردیا۔ ساتھ Ù‡ÛŒ ہم یہ بھی جانتے هیں کہ اسلام Ú©Û’ جزئیات قرآن میں نهیں هیں۔ حقیقت اسلام اس (امام) Ú©Û’ پاس Ù‡Û’Û” کیا لوگ سمجھتے هیں کہ ایسا شخص کون Ù‡Û’ کہ خود اسے منتخب کرلیں؟ یہ تو ایسا Ù‡ÛŒ هوا جیسے کہا جائے کہ پیغمبر(ص) کا انتخاب ہم خود Ú¾ÛŒ کرتے هیں!

"اِنَّ الۡامَامۃ اَجَلُّ قَدراً وَاَعۡظَمُ شاۡناً وَاَعۡلَیٰ مَکَاناً وَاَمۡنَعُ جانباً وَاَبۡعَدُ غوراً مِن اَنۡ یَبۡلُغَھا النَّاسُ بعقولِھِمۡ اَوۡ یَنَالوۡھَا بآرائِھمۡ۔" امامت انسان Ú©ÛŒ فکری حدود سے اس سے کهیں بالاتر Ù‡Û’ کہ اسے انتخابی قرار دیا جائے  اسی مسئلہ Ú©Ùˆ انتخابی کہا جانا چاہئے جسے لوگ واقعی طور پرتشخیص دے سکیں، جن مسائل میں انسان خود تشخیص Ú©ÛŒ صلاحیت رکھتا Ù‡Û’ وہاں دین کبھی براہ راست مداخلت نهیں کرتا۔ اور بنیادی طور پر ایسے مسائل میں دین Ú©ÛŒ براہ راست مداخلت بالکل غلط Ù‡Û’ØŒ کیونکہ ایسی صورت میں سوال اٹھے گا کہ پھر انسان Ú©ÛŒ فکر وعقل آخر کہاں کام آئے گی؟ جہاں تک انسانی فکر Ùˆ عقل کا دائرہ Ù‡Û’ انسان خود انتخاب کریں لیکن جو بات عقل Ùˆ بشر Ú©ÛŒ حد سے خارج اور بالاتر Ù‡Û’Û” اس میں انتخاب Ú©ÛŒ گنجائش Ù‡ÛŒ نهیں Ù‡Û’Û” (امامت) قدر Ùˆ منزلت Ú©Û’ اعتبار سے بہت بلند، شان Ú©Û’ اعتبار سے بہت عظیم، مرتبہ Ú©Û’ اعتبار سے بہت عالی Ù‡Û’ØŒ اس Ú©ÛŒ دیواریں ناقابل عبور هیں اور وہ عقل Ùˆ فکر Ú©ÛŒ حد سے باہر Ù‡Û’Û”

"انسان اپنی عقل Ú©Û’ ذریعہ امام Ú©Ùˆ درک نهیں کرسکتے اور نہ اس تک اپنی آراء Ú©Û’ ذریعہ رسائی حاصل کرسکتے هیں اور نہ اپنے اختیار سے اس کا انتخاب کرسکتے هیں"اِنَّ الامامَۃ خصَّ اللہ عَزَّ وَجَلَّ بھا ابراهِیۡمَ الۡخَلِیۡل بَعۡد النّبوّۃ وَالخُلّۃ" اگر امامت Ú©Û’ حقیقی معنٰی سمجھنا چاہتے هو تو یہ جان لو کہ (امامت) ان تمام مسائل سے الگ Ù‡Û’ جن کا آج لوگ اظہار کرتے هیں کہ پیغمبر(ص) کا ایک خلیفہ Ùˆ جانشین منتخب کریں، لیکن یہ جانشین پیغمبر(ص) صرف لوگوں Ú©Û’ امور Ú©ÛŒ دیکھ بھال کرے۔ امامت تو اصل میں وہ منصب Ù‡Û’ کہ ابراهیم علیہ السلام جیسا پیغمبر(ص) نبوت Ú©Û’ بعد اس تک رسائی حاصل کرتا Ù‡Û’ اور اس منصب پر فائز هونے Ú©Û’ بعد مسرت کا اظہار کرتے هوئے خدا Ú©ÛŒ بارگاہ میں عرض کرتا Ù‡Û’" وَمِن ذُرِّیَّتی" خداوندا میری ذریت میں سے Ú©Ú†Ú¾ افراد Ú©Ùˆ بھی یہ منصب عطا فرما۔ ابراهیم علیہ السلام جانتے هیں کہ یہ عظیم منصب ان Ú©ÛŒ تمام ذریت Ú©Ùˆ حاصل نهیں هوسکتا۔ جواب دیا جاتا Ù‡Û’"لَا یَنَالُ عَھۡدِی الظّالمِیۡنَ" یہ وہ منصب Ù‡Û’ جو ظالم Ú©Ùˆ نهیں مل سکتا۔ ہم عرض کرچکے هیں کہ یہاں سوال اٹھتا Ù‡Û’ کہ اس سے مراد کیا Ù‡Û’ØŸ کیا ظالم ہر حال میں ظالم Ù‡Û’ چاهے ماضی میں وہ ظالم رہا هو یا پہلے نیک اور صالح رہا هو کیونکہ کہ یہ محال Ù‡Û’ کہ ابراهیم علیہ السلام کهیں، خدا یا (یہ منصب) میری ذریت میں سے ظالموں Ú©Ùˆ عطا فرما۔ پس بھر حال ان Ú©ÛŒ نظر میں آپ Ú©ÛŒ نیک اور صالح اولاد Ù‡ÛŒ رهی هے۔چنانچہ خداوند عالم Ú©ÛŒ طرف سے جواب ملا کہ یہ منصب آپ Ú©ÛŒ ذریت میں سے ان Ú©Ùˆ عطا هوگا جن کا ظلم سے سابقہ نہ رہا هو۔ 

 "فَاَبطلت ھٰذہِ الۡآیَۃِ اِمَامَۃِ کُلّ ظَالِمٍ اِلَٰی یومِ القیَامۃ Ùˆ صارت فِی الصَّفۡوَۃِ" یہ منصب ان منتخب افراد میں Ù‡Û’ یعنی ذریت حضرت ابراهیم علیہ السلام میں اہل صفوۃ (منتخب اور بہترین افراد Ú©Ùˆ عطا هوا Ù‡Û’Û” (صفوۃ یعنی Ù…Ú©Ú¾Ù† Ú©Û’ مانند ایک ایسی چیز جسے مٹھا Ù…Ú¾ کر اوپر سے نکال لیتے هیں اور وهی"زبدہ" کہلاتا Ù‡Û’)Û”"ثمَّ اکرمَہ اللہُ تعَالیٰ باَنۡ جَعَلَھَا فِی ذُرِّیَّتِہِ اَھۡلَ الصِّفۡوَۃِ وَالطَّھَارَۃِ۔" (اس Ú©Û’ بعد خداوند عالم Ù†Û’ امامت Ú©Ùˆ بزرگ Ùˆ مکرّم بنایا اور وہ اس عنوان سے کہ اسے) صفوۃ اور اہل طہارت یعنی ذریت ابراهیم میں صاحبان عصمت کا حصہ قرار دیا۔ اس Ú©Û’ بعد امام (علیه السلام) قرآن Ú©ÛŒ آیات سے استدلال فرماتے هیں:

وَوَھَبۡنَا لَہ اِسۡحٰقَ وَیَعۡقُوۡبَ نَافِلَۃً وَّکُلًّا جَعَلنَا صَالِحِیۡنَ وَجَعَلۡنَاھُمۡ اَئِمۃً یَّھۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَاۡ ÙˆÙŽ اَوۡحَیۡنَا اِلَیۡھِمۡ فِعۡلَ الۡخَیۡرات[4] اور ہم Ù†Û’ ابراهیم علیہ السلام Ú©Ùˆ اسحٰق علیہ السلام Ùˆ یعقوب علیہ السلام جیسے فرزند عطا کئے  اور ہم Ù†Û’ ان سب Ú©Ùˆ نیکو کار Ùˆ صالح (نبی) قرار دیا۔ اور ان Ú©Ùˆ لوگوں کا ہادی Ùˆ پیشوا قرار دیا کہ ہمارے Ø­Ú©Ù… سے لوگوں Ú©ÛŒ ہدایت کرتے تھے، اور ہم Ù†Û’ ان Ú©ÛŒ طرف نیک اعمال بجالانے Ú©ÛŒ وحی کی۔

قرآن مجید میں اس نکتہ پر کافی زور دیا گیا هے کہ ذریت حضرت ابراهیم علیہ السلام کو منصب امامت سے نوازا گیا هے۔

 Ø§Ø³ Ú©Û’ بعد امام (علیه السلام) فرماتے هیں: فَمِنۡ اَینَ یختار ھٰؤلاء الجُھّال" آخر وہ مقام Ùˆ منصب جو حضرت ابراهیم علیہ السلام Ú©Ùˆ نبوت Ú©Û’ بعد عطا هوا، یہ نادان اسے آخر کس طرح انتخاب کرنا چاہتے هیں؟ کیا بنیادی طور پر یہ منصب انتخاب Ú©Û’ ذریعہ حاصل بھی کیا جاسکتا Ù‡Û’ØŸ! "اِنَّ الاَمَامَۃَ ھِیَ منزلۃ الانبیاءُ وارث الاوصیاء" امامت در اصل مقام انبیاء اور میراث اوصیاء Ù‡Û’Û” یعنی یہ ایک وراثتی امر Ùˆ منصب Ù‡Û’ لیکن قانونی میراث Ú©Û’ عنوان سے بلکہ اس اعتبار سے کہ اس Ú©ÛŒ استعداد Ùˆ صلاحیت ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل هوئی Ù‡Û’Û” "انَّ الاَمَامَۃَ خِلافۃُ اللہِ" امامت خلافت الٰهی Ù‡Û’ جو سب  سے پہلے آدم علیہ السلام Ú©Ùˆ عطا هوئی" وَخلافَۃُ الرَّسُوۡلِ" اور خلافت پیغمبر Ù‡Û’Û” اس Ú©Û’ بعد امام فرماتے هیں:"اِنَّ الۡاِمَامَۃِ زِمَامُ الدّیۡنِ…" امامت زمام دین، نظام مسلمین، صلاح Ùˆ فلاح دنیا، عزت مسلمین، اسلام Ú©ÛŒ اصل Ùˆ اساس اور اس کا بنیادی تنا Ù‡Û’Û”"بالامامِ تمام الصَّلوٰۃ والزَّکوٰۃ وَالصِّیَامِ وَالۡحَج وَالجھَادِ…تاآخر۔یعنی امام Ù‡ÛŒ Ú©Û’ ذریعہ نماز، زکوٰۃ، روزہ حج، جہاد اور دیگر اسلامی احکام Ùˆ اوامر کامل هوتے هیں۔



back 1 2 3 4 5 next