امامت ائمۂ اطهار عليهم السلام کی نگاه ميں



نتیجہ

مذکورہ بالا تمام باتوں سے ایک اساسی و بنیادی منطق ہمارے ہاتھ آتی هے۔ ہاں اگر بالفرض کوئی اسے بھی قبول نہ کرے تو اور بات هے۔ یہ منطق ان سطحی و معمولی مسائل سے بالکل الگ کہ اکثر متکلمین کی طرح ہم یہ کهیں کہ پیغمبر اسلام(ص) کے بعد ابوبکر خلیفہ هوئے اور علی (علیه السلام) چوتھے خلیفہ هوئے۔ آیا علی علیہ السلام کو پہلا خلیفہ هونا چاهیئے یا مثلاً چوتھا؟ آیا ابوبکر میں امامت کے شرائط پائے جاتے تھے یا نهیں؟ اس کے بعد ہم شرائط امامت کو مسلمانوں کی حاکمیت کے عنوان سے دیکھنا اور پرکھنا شروع کریں۔ البتہ یہ بھی ایک بنیادی و اساسی مطلب هے۔ اور شرائط حاکمیت کے اعتبار سے بھی شیعوں نے اعتراضات کئے هیں اور بجا اعتراضات کئے هیں۔ لیکن اصولی طور پر مسئلہ امامت کو اس انداز سے بیان کرنا هی صحیح نهیں هے کہ ابوبکر میں امامت کے شرائط پائے جاتے تھے یا نهیں۔ اصل میں خود اہل سنت بھی ان کے لئے اس منصب کا اقرار نهیں کرتے۔

اس سلسلہ میں اہل سنت کے عقیدہ کا خلاصہ یہ هے کہ آدم علیہ السلام و ابراهیم علیہ السلام سے لے کر حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک خدا وند عالم نے ان افراد سے متعلق انسان کے جتنے ماوراء الطبیعی پہلؤوں کا ذکر کیا هے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تمام هوگئے۔ پیغمبر اکرم(ص) کے بعد اب تمام انسان معمولی اور ایک جیسے هیں۔ اب صرف علماء ھیں جو پڑھنے لکھنے کے بعد عالم هوئے هیں اور ان سے کبھی غلطی هوتی هے کبھی نهیں هوتی۔ یا حکام هیں جن میں سے بعض عادل هیں اور بعض فاسق۔ اب یہ مسئلہ امامت ان هی کے درمیان دائر هوتا هے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب وہ باب جو ہمارے یہاں حجت الٰهیہ کے نام سے پایا جاتا هے، یعنی وہ افراد جو عالم ماوراء الطبیعہ یا عالم بالا سے ارتباط رکھتے هیں، (ان کے یہاں نهیں پایا جاتا، ان کا عقیدہ هےکہ) پیغمبر اکرم(ص) کے بعد وہ بساط هی لپیٹ دی گئی هے۔

شیعہ جواب دیتے هیں کہ (پیغمبر اکرم(ص) کے بعد) رسالت کا مسئلہ ختم هوگیا۔ اب کوئی دوسرا انسان کوئی نیا دین و آئین لے کر نهیں آئے گا۔ دین ایک سے زیادہ نهیں هے اور وہ هے اسلام، پیغمبر اکرم(ص) کے ساتھ رسالت و نبوت کا سلسلہ ختم هوگیا۔ لیکن حجت اور انسان کامل کا مسئلہ اور اس کی ضرورت انسانوں کے درمیان ہرگز تمام نهیں هوئی هے، کیونکہ روئے زمین پر پہلا انسان اس طرح کا تھا اور آخری انسان بھی ان هی صفات کا نمونہ هونا چاهیئے۔ ایل سنت میں صرف صوفیا کا طبقہ ایسا هے جو ایک دوسرے نام سے سھی، اس مطلب کو تسلیم کرتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے هیں کہ صوفیائے اہل سنت اگرچہ صوفی هیں لیکن جیسا کہ ان کے بعض بیانات سے ظاہر هوتا هے انهوں نے مسئلہ امامت کو اسی عنوان سے قبول کیا هے۔ جیسے شیعہ مانتے هیں۔

محی الدین عربی، اندلس کا رہنے والا هے۔ اور اندلس وہ جگہ هے جہاں کے رہنے والے نہ صرف سنی تھے بلکہ شیعوں سے عناد بھی رکھتے تھے اور ان میں ناصبیت کی بو پائی جاتی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ اندلس کو امویوں نے فتح کیا اور بعد میں برسہا برس وہاں ان کی حکومت رهی۔ اور چونکہ یہ لوگ بھی اہل بیت علیھم السلام کے دشمن تھے لہٰذا علمائے اہل سنت میں زیادہ تر ناصبی علماء اندلسی هیں شاید اندلس میں شیعہ هوں بھی نهیں اور اگر هوں گے بھی تو بہت کم اور نہ هو نے کے برابر هوں گے۔

بہر حال یہ محی الدین اندلسی Ù‡Û’ØŒ لیکن اپنے عرفانی ذوق Ú©ÛŒ بنا پر وہ اس بات کا معتقد Ù‡Û’ کہ زمین کبھی کسی ولی یا حجت سے خالی نهیں رہ سکتی۔ یہاں وہ شیعی نظریہ Ú©Ùˆ قبول کرتے هوئے ائمہ علیہم السلام Ú©Û’ ناموں کا ذکر کرتا Ù‡Û’ØŒ یہاں تک کہ حضرت حجت علیہ السلام کا نام بھی لیتا Ù‡Û’ اور دعویٰ کرتا Ù‡Û’ کہ میں Ù†Û’ سن Ú†Ú¾ سو Ú©Ú†Ú¾ ہجری میں حضرت محمد علیہ السلام بن حسن عسکری علیہ السلام سے فلاں مقام پر ملاقات Ú©ÛŒ ہے۔ البتہ بعض باتیں اس Ù†Û’ ایسی Ú©Ù‡ÛŒ هیں جو اس Ú©ÛŒ ایک دم ضد هیں اور وہ بنیادی طور پر ایک متعصب سنی Ù‡Û’ لیکن اس Ú©Û’ باوجود چونکہ اس کا ذوق عرفانی تقاضہ کرتا Ù‡Û’ کہ صوفیوں Ú©Û’ مطابق زمین کبھی کسی "ولی" (اور ہمارے ائمہ(علیہم السلام  Ú©Û’ مطابق حجت) سے خالی نهیں رہ سکتی،اس مسئلہ Ú©Ùˆ نہ صرف تسلیم کرتا Ù‡Û’ بلکہ مشاہدہ Ùˆ ملاقات کا دعویٰ کرتے هوئے یہ بھی کہتا Ù‡Û’ کہ میں حضرت محمد بن عسکری علیہ السلام Ú©ÛŒ خدمت میں پہنچ چکا هوں، اور اس وقت جبکہ ان Ú©ÛŒ عمر تین سو Ú©Ú†Ú¾ برسوں سے زیادہ هوچکی Ù‡Û’ اور وہ مخفی هیں، میں ان Ú©ÛŒ زیارت سے شرفیاب هوا هوں۔


[1] ڈارون کا مشہور نظریہ۔ انسان پہلے بندر تھا ……( مترجم)

[2] سورہ بقرہ۔ آیات ۳۰۔ ۳۱۔

[3] نہج البلاغہ، فیض الاسلام، حکمت نمبر ۱۲۹۔ مطابق نہج البلاغہ مترجم مفتی جعفر حسین مرحوم، حکمت ۱۴۷

[4] سورۂ انبیاء، آیت نمبر ۷۲۔ ۷۳



back 1 2 3 4 5