مولود کعبه



نکتہ

کچھ کتابوں میں یہ صراحت کے ساتھ ملتا ہے کہ ہم نے دیکھا کہ کعبہ پشت کی طرف سے کھلا اور فاطمہ بنت اسد اس میں داخل ہوگئیں۔ اس سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پشت کعبہ کہاں ہے؟

بہت سی روایتوں میں وجہ کعبہ (کعبہ کے فرنٹ) کا ذکر ہوا ہے اور اس سے مراد وہ حصہ ہے جس میں کعبہ کا دروازہ لگا ہوا ہے اور برابر میں مقام ابراہیم علیہ السلام ہے۔ لہذا اس بنیاد پر پشت کعبہ کا وہ مقام ہے جو رکن یمانی و رکن غربی کے بیچ واقع ہے۔

ابن مغازلی کا نظریہ

اوپر ہم دو شیعہ علماء کا نظریہ بیان کرچکے ہیں۔ اب ہم یہاں پانچویں صدی کے سنّی عالم ابن مغازلی کا نظریہ بیان کر رہے ہیں۔

ابن مغازلی متصل سند کے ساتھ موسیٰ بن جعفر﷼ سے وہ اپنے بابا امام صادق﷼ سے وہ اپنے بابا امام محمد باقر﷼ سے اور انھوں نے اپنے بابا امام سجاد علیہم السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں اور میرے بابا امام (حسین علیہ السلام) جد بزرگوار (پیغمبر اسلام) کی قبر

 Ú©ÛŒ زیارت Ú©Û’ Ù„Û’Û’ گئے تھے۔ وہاں پر بہت سے عورتیں جمع تھیں، ان میں سے ایک ہمارے پاس آئی۔ میں Ù†Û’ اس سے پوچھا خدا تجھ پر رحمت کرے!  تو کون ہے؟

اس نے کہامیں زیدہ بنت قریبہ بن عجلان قبیلہ بنی ساعدہ سے ہوں۔

میں نے اس سے کہا کہ کیا تو کچھ کہنا چاہتی ہے؟

اس Ù†Û’ جواب دیا ہاں! خدا Ú©ÛŒ قسم میری ماں امّ عمارہ بنت عبادہ بن نضلہ بن مالک بن  العجلان ساعدی Ù†Û’ مجھ سے نقل کیا ہے کہ میں Ú©Ú†Ú¾ عرب عورتوں Ú©Û’ ساتھ بیٹھی ہوئی تھی کہ ابوطالب غمگین حالت میں ہمارے پاس آئے۔ میں Ù†Û’ ان سے پوچھا کہ اے ابوطالب! آپ Ú©Û’ کیا حال ہیں؟ ابو طالب Ù†Û’ مجھ سے کہا کہ فاطمہ بنت اسد درد زہ سے تڑپ رہی ہیں۔ یہ کہہ کر انھوں Ù†Û’ اپنا ہاتھ ماتھے پر رکھا ہی تھا کہ اچانک محمد وہاں پر تشریف لائے اور پوچھا کہ چچا آپ Ú©Û’ کیا حال ہیں؟ ابوطالب Ù†Û’ جواب دیا کہ فاطمہ بنت اسد درد زہ سے پریشان ہیں۔ پیغمبر Ù†Û’ ابوطالب کا ہاتھ پکڑا اور وہ دونوں فاطمہ بنت اسد Ú©Û’ ساتھ کعبہ پہونچے۔ پیغمبر اسلام Ù†Û’ انھیں کعبہ Ú©Û’ دروازے Ú©Û’ پاس بٹھایا اور کہا کہ اللہ کا  نام لیکر یہاں بیٹھ جاؤ۔

فاطمہ بنت اسد نے کعبہ کے دروازے پر یک ناف بریدہ بچے کو جنم دیا۔ اس جیسا خوبصورت بچہ میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ ابوطالب نے اس بچے کا نام علی رکھا اور پیغمبر اسلام انھیں گھر لے کر آئے۔

امام سجاد علیہ السلام نے امّ عمارہ کی اس روایت کو سننے کے بعد کہا کہ میں نے اتنی اچھی بات کبھی نہیں سنی۔ ابن مغازلی کی یہ روایت اوپر بیان کی گئی دونوں شیعہ روایتوں سے مختلف ہے۔ لیکن یہ روایت حضرت علی علیہ السلام کی کعبہ میں ولادت پر دلالت کرتی ہے۔

دوسرے عالماء کا نظریہ

حضرت علی السلام کی کعبہ میں ولادت کے سلسلہ میں ہم اب تک آپ کے سامنے تین تفصیلی روایتیں بیان کر چکے ہیں۔ ان روایتوں کے علاوہ بہت سے شیعہ و سنّی علماء نے مختصر طور پر بھی اس روایت کو بیان کیاہے۔ یعنی کعبہ میں ولادت کو تو بیان کیا ہے مگر اس کے جزیات کو بیان نہیں کیا ہے۔

علامہ امینی (مرحورم) نے اپنی کتاب الغدیر میں حضرت علی علیہ السلام کی کعبہ میں ولادت کے واقعہ کو اہل سنت کی سولہ اور شیعوں کی پچاس اہم کتابوں کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ دوسری صدی ہجری سے کتاب لکھے جانے تک کے ۴۱/ شاعروں کے نام لکھے ہیں جنھوں نے اس واقعہ کو نظم کیا ہے اور کچھ شعر بھی نقل کیے ہیں۔

علامہ مجلسی (مرحوم) نے بحار الانوار میں حضرت علی علیہ السلام کی کعبہ میں ولادت کے واقعہ کو ۱۸/ شیعہ کتابوں سے نقل کیا ہے۔

آیت اللہ العظمیٰ مرعشی نجفی (مرحوم) نے احقاق الحق کی شرح کی ساتویں جلد میں حضرت علی علیہ السلام کی کعبہ میں ولادت کے واقعہ کو

 Ø§ÛÙ„ سنت Ú©ÛŒ Û±Û²/ کتابوں Ú©Û’ حوالہ سے نقل کیاہے۔

اور سترہویں جلد میں اس واقعہ کو اہل سنت کی اکیس کتابوں سے نقل کیا ہے۔ اس کے بعد علامہ آقا مہدی صاحب قبلہ کی کتاب علی والکعبہ کے حوالے سے اہل سنت کے ان ۸۳/ علماء کے نام لکھے ہیں، جنھوں نے حضرت علی علیہ السلام کی ولادت کو کعبہ میں تسلیم کیا ہے۔

نوٹ:

شیعہ و سنّی کتابوں کی تعداد میں اختلاف کا سبب یہ ہے کہ کچھ علماء کا بہت زیادہ تحقیق کا ارادہ نہیں تھا۔ بس ان کے پاس جتنی کتابیں تھیں یا انھوں نے جتنی کتابوںمیں پڑھا تھا انہی کے نام لکھے ہیں۔ یا امکانات کمی کی وجہ سے وہ تمام کتابوں کو نہیں دیکھ سکے۔ کچھ علماء کا پوری تحقیق کا ارادہ تھا اور ان کے پاس امکانات بھی موجود تھے، لہذا انھوں نے زیادہ کتابوں کے حوالے سے لکھا۔ چونکہ آج وسائل اور کتابیں موجود ہیں لہذا اگر اب کوئی اس بارے میں تحقیق کرنا چاہے تو اسے ایسی بہت سی کتابیں اور علماء مل جائیں گے جنھوں نے حضرت علی علیہ السلام کی ولادت کو کعبہ میں تسلیم کیا ہے۔



back 1 2