شهادت امام حسين (ع) کا اصلي مقصد



من کان غنيا فليستعفف ومن کان فقيرا فليا کل بالمعروف)جو اپنے ذاتي ذرائع آمدني اپني ضرورت بھر رکھتا ہو وہ اس مال سے تنخواہ ليتے ہوئے شرم کرے اور جو واقعي حاجت مند ہو وہ اتني تنخواہ لے جسے ہر معقول آدمي مبني برانصاف مانے)

خليفہ اس کي ايک ايک پائي کے آمد وخرچ پر حساب دينے کا ذمہ دار ہے اور مسلمانوں کو اس سے حساب مانگنے کاپورا حق ہے۔ خلفائے راشدين نے اس اصول کو بھي کمال درجہ ديانت اور حق شناسي کے ساتھ برت کر دکھايا۔ ان کے خزانے ميں جو کچھ بھي آتا تھا ٹھيک ٹھيک اسلامي قانون کے مطابق آتا تھا اور اس ميں سے جو کچھ خرچ ہوتا تھا بالکل جائز راستوں ميں ہوتا تھا۔ ان ميں سے جو غني تھا اس نے ايک جبہ اپني ذات کے لئے تنخواہ کے طور پر وصول کئے بغير مفت خدمت انجام دي‘ بلکہ اپني گرہ سے قوم کے لئے خرچ کرنے ميں بھي دريغ نہ کيا اور جو تنخواہ کے بغير ہمہ وقتي خدمت گار نہ بن سکتے تھے انہوں نے اپني ضروريات زندگي کے لئے اتني کم تنخواہ لي کہ ہر معقول آدمي اسے انصاف سے کم ہي مانے گا زيادہ کہنے کي جرات ان کا دشمن بھي نہيں کر سکتا۔ پھر اس خزانے کي آمدو خرچ کا حساب ہر وقت ہر شخص مانگ سکتا تھا اور وہ ہر وقت ہر شخص کے سامنے حساب دينے کے لئے تيار تھے۔ ان سے ايک عام آدمي بھر ے مجمع ميں پوچھ سکتا تھا کہ خزانے ميں يمن سے جو چادريں آئي ہيں ان کا طول و عرض تو اتنا نہ تھا کہ جناب کا يہ لمبا کرتا بن سکے‘ يہ زائد کپڑا آپ کہاں سے لائے ہيں؟ مگرجب خلافت بادشاہي ميں تبديل ہوئي تو خزانہ خدا اور مسلمانوں کا نہيں بلکہ بادشاہ کا مال تھا۔ ہر جائز و ناجائز راستے سے اس ميں دولت آتي تھي اورہر جائز و ناجائز راستے ميں بے غل و غش صرف ہوتي تھي۔ کسي کي مجال نہ تھي کہ اس کے حساب کا سوال اٹھا سکے۔ سارا ملک ايک خوان يغما تھا جس پر ايک ہر کارے سے لے کر سربراہ مملکت تک‘ حکومت کے سارے کل پرزے حسب تو فيق ہاتھ مار رہے تھے اور ذہنوں سے يہ تصور ہي نکل گيا تھا کہ اقتدار کوئي پروانہ اباحت نہيں ہے جس کي بدولت يہ لوٹ مار ان کے لئے حلال ہو اور پبلک کا مال کوئي شير مادر نہيں ہے جسے وہ ہضم کرتے رہيں ا ور کسي کے سامنے انہيں اس کا حساب دينا نہ ہو۔

قانون الہي کي حکمراني

چھٹا اصول اس دستور کا يہ تھا کہ ملک ميں قانون (يعني خدا اور رسول کے قانون) کي حکومت ہوني چاہئے۔ کسي کو قانون سے بالاتر نہ ہونا چاہئے۔ کسي کو قانون کي حدود سے باہر جا کر کام کرنے کا حق نہ ہونا چاہئے۔ ايک عامي سے لے کر سربراہ مملکت تک سب کے لئے ايک ہي قانون ہونا چاہئے اور سب پر اسے بے لاگ طريقے سے نافذ ہونا چاہئے۔ انصاف کے معاملے ميں کسي کے ساتھ کوئي امتيازي سلوک نہ ہونا چاہئے اور عدالتوں کو انصاف کرنے کے لئے ہر دباؤ سے بالکل آزاد ہونا چاہئے۔ خلفائے راشدين نے اس اصول کي پيروي کا بھي بہترين نمونہ يپش کيا تھا۔ بادشاہوں سے بڑھ کر اقتدار رکھنے کے باوجود وہ قانون الہي کي بندشوں ميں جکڑے ہوئے تھے۔ نہ ان کي دوستي اور رشتہ داري قانون کي حد سے نکل کر کسي کو کچھ نفع پہنچا سکتي تھي اورنہ ان کي ناراضي کسي کو قانون کے خلاف کوئي نقصان پہنچا سکتي تھي۔ کوئي ان کے اپنے حق پر دست درازي کرتا تو وہ ايک عام آدمي کي طرح عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے تھے اور کسي کو ان کے خلاف شکايت ہوتي تو وہ استغاثہ کرکے انہيں عدالت ميں کھينچ لاسکتا تھا۔ اسي طرح انہوں نے اپني حکومت کے گورنروں اور سپہ سالاروں کو بھي قانون کي گرفت ميں کس رکھا تھا۔ کسي کي مجال نہ تھي کہ عدالت کے کام ميں کسي قاضي پر اثر انداز ہونے کا خيال بھي کرتا۔ کسي کا يہ مرتبہ نہ تھا کہ قانون کي حد سے قدم باہر نکال کر مواخذہ سے بچ جاتا۔ ليکن خلافت سے بادشاہي کي طرف انتقال واقع ہوتے ہي اس قاعدے کے بھي چيتھڑے اڑگئے۔ اب بادشاہ اور شاہزادے اور امراء اورحکام اور سپہ سالار ہي نہيں‘ شاہي محلات کے منہ چڑھے لونڈي غلام تک قانون سے بالاتر ہوگئے۔ لوگوں کي گردنيں اور پيٹھيں اور مال اور آبروئيں‘ سب ان کے لئے مباح ہوگئيں۔ انصاف کے دو معيار بن گئے۔ ايک کمزور کے لئے اور دوسرے طاقت ور کے لئے۔ مقدمات ميں عدالتوں پر دباؤ ڈالے جانے لگے اور بے لاگ انصاف کرنے والے قاضيوں کي شامت آنے لگي۔ حتي کہ خدا ترس فقہاء نے عدالت کي کرسي پر بيٹھنے کے بجائے کوڑے کھانا اور قيد ہو جانا زيادہ قابل ترجيح سمجھا تاکہ وہ ظلم وجور کے آلہ کار بن کر خدا کے عذاب کے مستحق نہ بنيں۔

کامل مساوات

مسلمانوں ميں حقوق اور مراتب کے لحاظ سے کامل مساوات‘ اسلامي دستور کا ساتواں اصول تھا‘ جسے ابتدائي اسلامي رياست ميں پوري قوت کے ساتھ قائم کيا گيا تھا۔ مسلمانوں کے درميان نسل‘ وطن ‘ زبان وغيرہ کا کوئي امتياز نہ تھا۔ قبيلے اور خاندان اور حسب و نسب کے لحاظ سے کسي کو کسي پر فضيلت نہ تھي۔ خدا اور رسول کے ماننے والے سب لوگوں کے حقوق يکساں تھے اور سب کي حيثيت برابر تھي۔ ايک کو دوسرے پر ترجيح اگر تھي تو سيرت و اخلاق اور اہليت و صلاحيت اور خدمات کے لحاظ سے تھي۔ ليکن خلافت کي جگہ جب بادشاہي نظام آيا تو عصبيت کے شياطين ہر گوشے سے سر اٹھانے لگے۔ شاہي خاندان اور ان کے حامي خانوادوں کا مرتبہ سب سے بلند و برتر ہوگيا۔ ان کے قبيلوں کو دوسرے قبيلوں پر ترجيحي حقوق حاصل ہوگئے۔ عربي اور عجمي کے تعصبات جاگ اٹھے۔ خود عربوں ميں قبيلے اور قبيلے کے درميان کشمکش پيدا ہوگئي۔ ملت اسلاميہ کو اس چيز نے جو نقصان پہنچايا اس پر تاريخ کے اوراق گواہ ہيں۔

خلاصہ کلام

يہ تھے وہ تغيرات جو اسلامي خلافت Ú©Ùˆ خانداني بادشاہت ميں تبديل کرنے سے رونما ہوئے۔ کوئي شخص اس تاريخي حقيقت کا انکار نہيں کر سکتا کہ يزيد Ú©ÙŠ ولي عہدي ان تغيرات کا نقطہء آغاز تھي اور اس بات سے بھي انکار ممکن نہيں ہے کہ اس نقطے سے Ú†Ù„ کر تھوڑي مدت Ú©Û’ اندر ہي بادشاہي نظام ميں وہ سب خرابياں نماياں ہوگئيں جو اوپر بيان Ú©ÙŠ گئي ہيں۔ جس وقت يہ انقلابي قدم اٹھايا گيا تھا اس وقت يہ خرابياں اگرچہ بہ تمام Ùˆ کمال سامنے نہ آئي تھيں‘ مگر ہر صاحب بصيرت آدمي جان سکتا تھا کہ اس اقدام Ú©Û’ لازمي نتائج يہي Ú©Ú†Ú¾ ہيں اور اس سے ان اصلاحات پر پاني پھر جانے والا ہے جو اسلام Ù†Û’ سياست Ùˆ رياست Ú©Û’ نظام ميں Ú©ÙŠ ہيں۔ اسي لئے امام حسين (ع) اس پر صبر نہ کر سکے اور انہوں Ù†Û’ فيصلہ کيا کہ جو بدتر سے بدتر نتائج بھي انہيں ايک مضبوط جمي جمائي حکومت Ú©Û’ خلاف اٹھنے ميں بھگتنے پڑيں‘ ان کا خطرہ مول Ù„Û’ کر بھي انہيں اس انقلاب Ú©Ùˆ روکنے Ú©ÙŠ کوشش کرني چاہئے۔ اس کوشش کا جو انجام ہوا وہ سب Ú©Û’ سامنے ہے‘ مگر امام Ù†Û’ اس عظيم خطرے ميں کود کر اور مردانہ وار اس Ú©Û’ نتائج Ú©Ùˆ انگيز کرکے جو بات ثابت Ú©ÙŠ وہ يہ تھي کہ اسلامي رياست Ú©ÙŠ بنيادي خصوصيات امت مسلمہ کا وہ بيش قيمت سرمايہ ہيں جسے بچانے Ú©Û’ لئے ايک مومن اپنا سر بھي دے دے اور اپنے بال بچوں Ú©Ùˆ بھي کٹوا بيٹھے تو اس مقصد Ú©Û’ مقابلے ميں يہ کوئي مہنگا سودا نہيں ہے‘ اور ان خصوصيات Ú©Û’ مقابلے ميں وہ دوسرے تغيرات جنہيں اوپر نمبر وار گناياگيا ہے‘ دين اور ملت Ú©Û’ لئے وہ آفت عظميٰ ہيں جسے روکنے Ú©Û’ لئے ايک مومن Ú©Ùˆ اگر اپنا سب Ú©Ú†Ú¾ قربان کردينا Ù¾Ú‘Û’ تو اس ميں دريغ نہ کرنا چاہئے۔ کسي کا جي چاہے تو اسے حقارت Ú©Û’ ساتھ ايک سياسي کام کہہ Ù„Û’Û” مگر حسين (ع)  ابن علي(ع)  Ú©ÙŠ نگاہ ميں تو يہ سراسر ايک ديني کام تھا‘ اسي لئے انہوں Ù†Û’ اس کام ميں جان دينے Ú©Ùˆ شہادت سمجھ کر جان دي

دين اہلبيت (ع) کے نزديک

 Ø§Ø¨ÙˆØ§Ù„جارود ! ميں Ù†Û’ امام باقر (ع) سے عرض کيا ØŒ فرزند رسول Û”! آپ Ú©Ùˆ تو معلوم ہے کہ ميں آپ کا چاہنے والا، صرف آپ سے وابستہ آپ کا غلام ہوں ØŸ فرمايا ۔بيشک !
ميں نے عرض کيا کہ مجھے ايک سوال کرنا ہے، اميد ہے کہ آپ جواب عنايت فرماديں گے، اس لئے کہ ميں نابيناہوں، بہت کم چل سکتاہوں اور بار بارآپ کي خدمت ميں حاضر نہيں ہوسکتاہوں، فرمايا بتاؤ کيا کام ہے؟ ميں نے عرض کي آپ اس دين سے باخبر کريں جس سے آپ اور آپ کے گھر والے اللہ کي اطاعت کرتے ہيں تا کہ ہم بھي اس کو اختيار کرسکيں۔

فرمايا کہ تم نے سوال بہت مختصر کيا ہے مگر بڑا عظيم سوال کيا ہے خير ميں تمھيں اپنے اور اپنے گھر والوں کے مکمل دين سے آگاہ کئے ديتاہوں ديکھو يہ دين ہے توحيد الہي، رسالت رسول اللہ ان کے تمام لائے ہوئے احکام کا اقرار ہمارے اولياء سے محبت ہمارے دشمنوں سے عداوت ، ہمارے امر کے سامنے سراپا تسليم ہوجانا ، ہمارا قائم کا انتظار کرنا اور اس راہ ميں احتياط کے ساتھ کوشش کرنا ۔( کافي 1 ص 21 /10۔203۔

ابوبصير ! ميں امام باقر (ع) کي خدمت ميں حاضر تھا کہ آپ سے سلام نے عرض کيا کہ خيثمہ بن ابي خيثمہ نے ہم سے بيان کيا ہے کہ انھوں نے آپ سے اسلام کے بارے ميں دريافت کيا تو آپ نے فرمايا کہ جس نے بھي ہمارے قبلہ کا رخ کيا ، ہماري شہادت کے مطابق گواہي دي، ہماري عبادتوں جيسي عبادت کي ، ہمارے دوستوں سے حبت کي ، ہمارے دشمنوں سے نفرت کي وہ مسلمان ہے۔

فرمايا خيثمہ نے بالکل صحيح بيان کيا ہے… ميں نے عرض کي اور ايمان کے بارے ميں آپ نے فرمايا کہ خدا پر ايمان، اس کي کتاب کي تصديق اور ان کي نافرماني نہ کرنا ہي ايمان ہے۔ فرمايا بيشک خيثمہ نے سچ بيان کيا ہے۔( کافي 2 ص 38 /5)۔204۔

علي بن حمزہ نے ابوبصير سے روايت کي ہے کہ ميں نے ابوبصير کو امام صادق (ع) سے سوال کرتے سنا کہ حضور ميں آپ پر قربان، يہ تو فرمائيں کہ وہ دين کيا ہے جسے پروردگار نے اپنے بندوں پر فرض کيا ہے اور اس سے ناواقفيت کو معاف نہيں کيا ہے اور نہ اس کے علاوہ کوئي دين قبول کياہے؟



back 1 2 3 4 next