شهادت امام حسين (ع) کا اصلي مقصد



 Ø±ÙˆØ§ÙŠØª ميں وارد ہواہے کہ مامون Ù†Û’ فضل بن سہل ذوالرياستيں Ú©Ùˆ امام رضا Ú©ÙŠ خدمت ميں روانہ کيا اور اس Ù†Û’ کہا کہ ميں چاہتاہوں کہ آپ حلال Ùˆ حرام ØŒ فرائض Ùˆ سنن سب Ú©Ùˆ ايک مقام پر جامع طور پر پيش کرديں کہ آپ مخلوقات پر پروردرگار Ú©ÙŠ حجت اور علم کا معدن ہيں۔
آپ نے قلم و کاغذ طلب فرمايا اور فضل سے فرمايا کہ لکھو ہمارے لئے يہ کافي ہے کہ ہم اس بات کي شہادت ديں کہ خدا کے علاوہ کوئي دوسرا خدا نہيں ہے، وہ احدہے ، صمد ہے، اس کي کوئي زوجہ يا اولاد نہيں ہے وہ قيوم ہے، سميع و بصير ہے، قوي و قائم ہے، باقي اور نور ہے، عالم ہر شے اور قادر عليٰ کل شي ہے۔ ايسا غني جو محتاج نہيں ہوتاہے اور ايسا عادل جو ظلم نہيں کرتاہے، ہر شے کا خالق ہے، اس کا کوئي مثل نہيں ہے، اس کي شبيہ و نظير اور ضد يا مثل نہيں ہے اور اس کا کوئي ہمسر بھي نہيں ہے۔

پھر اس بات کي گواہي ديں کہ محمد (ع) اس کے بندہ ، رسول ، امين ، منتخب روزگار، سيد المرسلين، خاتم النبييّن ، افضل العالمين ہيں، اس کے بعد کوئي نبي نہيں ہے، ان کے نظام شريعت ميں کوئي تبديلي ممکن نہيں ہے، وہ جو کچھ خدا کي طرف سے لے کر آئے ميں سب حق ہے ، ہم سب کي تصديق کرتے ہيں اور ان کے پہلے کے انبياء و مرسلين اور حجج الہيہ کي تصديق کرتے ہيں، اس کي کتاب صادق کي بھي تصديق کرتے ہيں جہاں تک باطل کا گذر نہ سامنے سے ہے اور نہ پيچھے سے، وہ خدائے حکيم و حميد کي تنزيل ہے۔( فصلت 42)۔

يہ کتاب تمام کتابوں کي محافظ اور اول سے آخر تک حق ہے، ہم اس کے محکم و متشابہ ، خاص و عام ، وعد و وعيد، ناسخ و منسوخ، اور اخبار سب پر ايمان رکھتے ہيں، کوئي شخص بھي اس کا مثل و نظير نہيں لاسکتاہے۔

اور اس بات کي گواہي ديتے ہيں کہ رسول اکرم کے بعد دليل اور حجت خدا، امور مسلمين کے ذمہ دار، قرآن کے ترجمان، احکام الہيہ کے عالم ان کے بھائي ، خليفہ ، وصي ، صاحب منزلت ہارون علي (ع) بن ابيطالب امير المومنين ، امام المتقيم ، قائد لغراالمحجلين، يعسوب المومنين ، افضل الوصيين ہيں اور ان کے بعد حسن (ع) و حسين (ع) ہيں اور آج تک يہ سلسلہ جاري ہے، يہ سب عترت رسول اور اعلم بالکتاب و السنه ہيں۔

سب سے بہتر فيصلہ کرنے والے اور ہر زمانہ ميں امامت کے سب سے زيادہ حقدار ہيں، يہي عروة الوثقيٰ ہيں اور يہي ائمہ ہدي ميں اور يہي اہل دنيا پر حجت پروردگار ہيں، يہاں تک کہ زمين اور اہل زمين کي وراثت خدا تک پہنچ جائے کہ وہي کائنات کا وارث و مالک ہے اور جس نے بھي ان حضرات سے اختلاف کيا وہ گمراہ اورگمراہ کن ہے، حق کو چھوڑنے والا اور ہدايت سے الگ ہوجانے والا ہے، يہي قرآن کي تعبير کرنے والے اور اس کے ترجمان ہيں، جو ان کي معرفت کے بغير اور نام بنام ان کي محبت کے بغير مرجائے وہ جاہليت کي موت مرتاہے۔( تحف العقول ص 415)۔208۔

عبدالعظيم بن عبداللہ الحسنئ کا بيان ہے کہ ميں امام علي نقي (ع) بن محمد (ع) بن علي (ع) بن موسيٰ (ع) بن جعفر (ع) بن محمد (ع) بن علي (ع) بن الحسين (ع) بن علي (ع) بن ابي طالب (ع) کي خدمت ميں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے ديکھ کر مرحبا کہا اور فرمايا کہ تم ہمارے حقيقي دوست ہو۔

ميں نے عرض کي کہ حضور ميں آپ کے سامنے اپنا پورا دين پيش کرنا چاہتاہوں کہ اگر صحيح ہے تو ميں اسي پر قائم رہوں ؟

آپ نے فرمايا ضرور ۔!

ميں نے کہا کہ ميں اس بات کا قائل ہوں کہ خدا ايک ہے، اس کا کوئي مثل نہيں ہے ، وہ ابطال اور تشبيہ دونوں حدودں سے باہر ہے، نہ جسم ہے نہ صورت ، نہ عرض ہے نہ جوہر، تمام اجسام کو جسميت دينے والا اور تمام صورتوں کا صورت گر ہے، عرض و جوہر دونوں کا خالق ہر شے کا پرورگار ، مالک ، بنانے والا اور ايجاد کرنے والا ہے۔

حضرت محمد اس کے بندہ ، رسول اور خاتم النبيين ہيں ، ان کے بعد قيامت تک کوئي نبي آنے والا نہيں ہے اور ان کي شريعت بھي آخري شريعت ہے جس کے بعد کوئي شريعت نہيں ہے۔

اور امام و خليفہ و ولي امر آپ کے بعد امير المومنين (ع) علي ابن ابي طالب ہيں۔ اس کے بعد امام حسن (ع) ، پھر امام حسين (ع) پھر علي بن الحسين (ع) پھر محمد بن علي (ع) پھر جعفر بن محمد(ع) ، پھر موسيٰ (ع) بن جعفر (ع) ، پھر علي (ع) بن موسيٰ (ع) ، پھر اس کے بعد آپ !۔

حضرت نے فرمايا کہ ميرے بعد ميرا فرزند حسن (ع) اور اس کے بعد ان کے نائب کے بارے ميں لوگوں کا کيا حال ہوگا؟

ميں نے عرض کي کيوں ؟ فرمايا اس لئے کہ وہ نظر نہ آئے گا اور اس کا نام لينا بھي جائز نہ ہوگا يہاں تک کہ منظر عام پر آجائے اور زمين کو عدل و انصاف سے اسي طرح بھرديگا جس طرح ظلم و جور سے بھري ہوگي ۔

ميں نے عرض کي حضور ميں نے اس کا بھي اقرار کرليا اور اب يہ بھي کہتاہوں کہ جو ان کا دوست ہے وہي اپنا دوست ہے اور جو ان کا دشمن ہے وہي اپنا بھي دشمن ہے، ان کي اطاعت اطاعت خدا اور ان کي معصيت معصيت خدا ہے۔

اور ميرا عقيدہ يہ بھي ہے کہ معراج حق ہے اور قبر کا سوال بھي حق ہے اور جنت و جہنم بھي حق ہے اور صراط و ميزان بھي حق ہے اور قيامت بھي يقيناً آنے والي ہے اور خدا سب کو قبروں سے نکالنے والا ہے۔

اور ميرا کہنا يہ بھي ہے کہ ولايت اہلبيت (ع) کے بعد فرائض ميں نماز۔ زکوة، روزہ، حج، جہاد، امر بالمعروف ، نہي عن المنکر سب شامل ہيں، حضرت نے فرمايا اے ابوالقاسم ! خدا کي قسم يہي وہ دين ہے جسے خدا نے اپنے بندوں کے لئے پسند فرماياہے اور تم اس پر قائم رہو، پروردگار تمھيں دنيا و آخرت ميں اس پر ثابت قدم رکھے۔( امالي (ر) صدوق 278 / 24 ، التوحيد 81/ 37 ، کمال الدين 379 ، روضه الواعظين ص 39 ، کفايه الاثر ص 282 ، ملاحظہ ہو



back 1 2 3 4