کربلا،عقيده و عمل ميں توحيد کي نشانياں



امام کي يہ حالت اور يہ جذبہ آپ کے قيامت اور نفرت الٰہي پر دلي اعتقاد کا ظاہري جلوہ ہے اور ساتھ ہي دعا و طلب ميں توحيد کے مفہوم کو سمجھاتا ہے۔

ديني تعليمات کا اصلي ہدف بھي لوگوں کو خدا کے نزديک کرتا ہے چنانچہ يہ مطلب شہداء کربلا کے زيارتناموں خاص کر زيارت امام حسين ميں بھي بيان ہوا ہے ۔ اگر زيارت کے آداب کوديکھا جائے توان کا فلسفہ بھي خدا کا تقرب ہي ہے جو کہ عين توحيد ہے امام حسين کي ايک زيارت ميں خدا سے مخاطب ہو کے ہم يوں کہتے ہيں کہ ”خدايا! کوئي انسان کسي مخلوق کي نعمتوں اور ہدايا سے بہرہ مند ہونے کے لئے آمادہ ہوتا ہے اور وسائل تلاش کرتا ہے ليکن خدايا ميري آمادگي اور ميرا سفر تيرے لئے اور تيرے ولي کي زيارت کے لئے ہے اور اس زيارت کے ذريعہ تيري قربت چاہتا ہوں اور انعام وہديہ کي اميد صرف تجھ سے رکھتا ہوں۔[6]

اوراسي زيارت کے آخر ميں زيارت پڑھنے والا کہتا ہے ! خدايا! صرف تو ہي ميرا مقصود سفر ہے اور صرف جو کچھ تيرے پاس ہے اس کو چاہتا ہوں ” فاليک فقدت وما عندک اردت“

يہ سب چيزيں شيعہ عقائد کے توحيدي پہلو کا پتہ دينے والي ہيں جن کي بنا پر معصومين عليہم السلام کے روضوں اور اولياء خدا کي زيارت کو خدا اور خالص توحيد تک پہونچنے کے لئے ايک وسيلہ اور راستہ قرارديا گيا ہے اور حکم خدا کي بنا پر ان کي ياد منانے کي تاکيد کي گئي ہے۔


[1] بحار الانوار،ج/۴۴،ص/۳۶۷
[2] بحار الانوار،ج۴۵،ص/۱۷، مناقب،ج/۴،ص/۱۰۱
[3] موسوعہ کلمات امام حسين،ص/۳۷۷
[4] موسوعہ کلمات امام حسين،ص/۳۷۸
[5] بحار الانوار،ج/۴۵،ص/۴
[6] تہذيب الاحکام، شيخ طوسي،ج/۶،ص/Û¶Û² 



back 1 next