فلسفۂ انتظار



اسی اعتراض كو ان الفاظ میں بیان كیا جاسكتا ھے:

وہ حضرات جو ظھور حضرت مھدی علیہ السلام كے انتظار میں زندگی بسر كر رھے ھیں، انھیں یہ انتظار كوئی تقویت نہیں پہونچاتا بلكہ رھی سہی قوت ارادی كو بھی چھین لیتا ھے گنے چُنے جو نیك لوگ ھیں انھیں بھی یہ انتظار نیك باقی نہیں رھنے دیتا۔ فقر و فاقہ كی زندگی میں روز بہ روز اضافہ ھی ھوتا چلا جاتا ھے، كیونكہ جو لوگ كم مایہ اور فقیر ھیں وہ اس امید میں ھاتھ پر ھاتھ دھرے بیٹھے ھیں كہ جب حضرت كا ظہور ھوگا، اس وقت ھماری حالت "خود بخود" بدل جائے گی، فقر و فاقہ دور ھوجائے گا، زندگی كا ایك حصہ تو گذر چكا ھے بقیہ بھی اسی امید میں گذر جائے گا۔ سرمایہ داروں كو تو چاندی ھوجائے گی۔ وہ اسی بہانے اپنی تجوریاں بھرتے چلے جائیں گے، لوگوں كو اپنا دست نگر بنانے میں كامیاب ھوتے رھیں گے۔ یہ عقیدہ انسانی زندگی كے لئے آبِ حیات ھے یا صحیح معنوں میں زھر ھلاھل۔؟

یہ ھے وہ اعتراض جسے مخالفین كافی آب و تاب سے بیان كرتے ھیں۔ ھوسكتا ھے

خود دل سے اس اعتراض كو قبول نہ كرتے ھوں، مگر اپنے ناپاك مقاصد كے لئے، اپنی شخصیت كو چھپانے كے لئے اس اعتراض كو "بطور نقاب" استعمال كرتے ھوں۔

جو بھی صورت حال ھو، اس اعتراض كے جواب كے لئے ان باتوں كی طرف توجہ فرمایئے:

1۔ صف بندی اور تشخیص

اس عالمی انقلاب میں یا تو لوگ موافقین كی فہرست میں ملیں گے یا پھر مخالفین كی فہرست میں، تماشائی كی حیثیت كوئی معنی نہیں ركھتی ھے۔ دنیا میں جتنے بھی انقلاب آتے ھیں سب كی صورت حال یہی ھے۔ كیونكہ دنیا میں جتنے بھی انقلاب آئے ھیں وہ دو صورتوں سے خالی نہیں ھیں۔ انقلاب سماج كے لئے فائدہ مند ھوگا یا فائدہ مند نہیں ھوگا اگر انقلاب سماج كے لئے فائدہ مند ھے تو ھر آدمی كا فریضہ ھے كہ اس میں شركت كرے، اگر یہ انقلاب سماج كے لئے نقصان كا باعث ھے تو سب كا فریضہ ھے كہ مل كر اس كی مخالفت كریں اور اس كو كامیاب نہ ھونے دیں۔ یہ بات دور از عقل ھے كہ انقلاب تو آئے لیكن سماج كے لئے نہ فائدہ مند ھو نہ باعثِ نقصان۔

جب یہ بات تو ھمیں چاھیئے كہ ھم ابھی سے یہ طے كرلیں كہ ھمیں كس صف میں رھنا ھے ھم اپنے كو خود آزمالیں كہ ھمیں كس كا ساتھ دینا ھے۔

اگر آج ھم فساد كی آگ كو ھوا دے رھے ھیں تو كل كیونكر اصلاح كرنے والوں كی صف میں آجائیں گے اور فساد كو آگ بجھا رھے ھوں۔؟ اگر آج ھمارا دامن ظلم و جور سے آلودہ ھوگا تو كل یقیناً ھمارا شمار مخالفین كی فہرست میں ھوگا۔ كیونكہ یہ بات تو سبھی تسلیم كرتے ھیں كہ حضرت مھدی علیہ السلام كے ظھور كے بعد جو انقلاب آئے گا اس میں ظلم و جور كا نشان تك باقی نہ رھے گا۔ ھم كو ان ظالموں كی صف میں اپنے كو شمار كرنا چاھئے جن كی گردنوں كا بوسہ عدل و انصاف كی شمشیر لے گی۔ فساد پھیلانا تو بالكل ایسا ھی ھے كہ ھم ایك ایسی آگ بھڑكائیں جس كا پہلا شعلہ ھمیں ھی خاكستر كردے۔

اگر اس اعتراض كو قبول بھی كرلیا جائے تو اس كا مطلب یہ ھوگا كہ ھم جس قدر اپنے اعمال بد كے ذریعہ حضرت مھدی علیہ السلام كے ظھور كو نزدیك كریں گے اتنا ھی ھم اپنی نابودی اور فنا سے بھی قریب تر ھوجائیں گے، اپنے ھی ھاتھوں اپنے پیروں پر كلہاڑی مار لیں گے۔

اگر ھم باقی رھنا چاھتے ھیں اور اس عالمی انقلاب كے نتائج سے لطف اندوز اور بہرہ مند ھونا چاھتے ھیں تو اپنے دامن كو آلودگیوں سے دور ركھیں، ظلم و جور سے تمام رشتوں كو توڑدیں، ضلالت و گمراھی كے سمندر سے نكل كر ھدایت كے ساحل پر آجائیں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 next