فلسفۂ انتظار



اس بات كا جواب یہ ھے كہ روایات میں "سیف" كا لفظ استعمال كیا گیا ھے۔

سیف" یا شمشیر یہ الفاظ جب استعمال كیے جاتے ھیں تو ان سے قدرت و طاقت مراد لی جاتی ھے جس طرح "قلم" سے ثقافت كو تعبیر كیا جاتا ھے۔

روایات میں لفظ "سیف" سے عسكری طاقت مراد ھے

یہ بات بھی واضح ھوجائے ك ھرگز یہ خیال بھی ذھنوں میں نہ آئے كہ حضرت ظھور كے بعد یكبارگی تلوار اٹھالیں گے اور ایك طرف سے لوگوں كے سرقلم كرنا شروع كردیں گے۔

سب سے پہلے دلائل كے ذریعہ حقائق بیان فرمائیں گے۔ افكار كی رھنمائی فرمائیں گے، عقل كو دعوت نظر دیں گے، مذھب كی اصطلاح میں سب سے پہلے "اتمام حجّت" كریں گے۔ جب ان باتوں سے كوئی فائدہ نہ ھوگا اس وقت تلوار اٹھائیں گے۔

پھر تو اك برق تباں جانبِ اشرار چلی

نہ چلی بات تو پھر دھوم سے تلوار چلی

اسلام كو اپنی حقانیت پر اس قدر اعتماد ھے كہ اگر اسلامی تعلیمات واضح طور سے بیان كردی جائیں تو ھر منصف مزاج فوراً تسلیم كرلے گا ھاں صرف ھٹ دھرم اور تعصّب كے اندھے قبول نہ كریں گے اور ان كا تو بس ایك علاج ھے اور وہ ھے تلوار یعنی طاقت كا مظاھرہ۔

طرز حكومت

حضرت مھدی سلام اللہ علیہ كے عالمی انقلاب كے لئے تین مراحل ضروری ھیں:

پہلا مرحلہ: انتظار۔ آمادگی۔ علامتیں



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 next