خدا پر ایمان لانے کا راستہ :



اوررسول خدا    (ص)سے منقول Ú¾Û’: ((ماجزاء من اٴنعم عزوجل علیہ بالتوحید إلا الجنة))[60]

جو اس کلمہ طیبہ کا ھر وقت ورد کرتاھے ، وہ حوادث کی جان لیوا امواج، وسواس اور خواھشات نفسانی کے مقابلے میں کشتی ِ ٴدل کو لنگرِ ((لا إلہ إلا اللّٰہ)) کے ذریعے ھلاکتوں کی گرداب سے نجات دلاتا ھے<اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوَبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ اٴَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ>[61]

کلمہ طیبہ Ú©Û’ حروف کوبالجھر اور بالاخفات دونوں طریقوں سے  ادا کیا جاسکتا Ú¾Û’ کہ جامعِ ذکرِ جلی وخفی Ú¾Û’ اور اسم مقدس ((اللّٰہ))پر مشتمل Ú¾Û’ØŒ کہ امیرالموٴمنین   (ع) سے منقول Ú¾Û’ کہ: ((اللّٰہ)) اسماء خدا میں سے بزرگترین اسم Ú¾Û’ اور ایسا اسم Ú¾Û’ جو کسی مخلوق Ú©Û’ لئے نھیں رکھا گیا۔ اس Ú©ÛŒ تفسیر یہ Ú¾Û’ کہ غیر خدا سے امید ٹوٹ جانے Ú©Û’ وقت ھر ایک اس Ú©Ùˆ پکارتا Ú¾Û’ <قُلْ اٴَرَاٴَیْتَکُمْ إِنْ اٴَتَاکُمْ عَذَابُ اللّٰہِ اٴَوْ اٴَتَتْکُمُ السَّاعَةُ اٴَ غَیْرَ اللّٰہِ تَدْعُوْنَ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَةبَلْ إِیَّاہُ تَدْعُوْنَ فَےَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ إِلَیْہِ إِنْ شَاءَ ÙˆÙŽ تَنْسَوْنَ مَا تُشْرِکُوْنَ>[62]

ابو سعید خدری Ù†Û’ رسول خدا   (ص)سے روایت Ú©ÛŒ Ú¾Û’ کہ خداوند جل جلالہ Ù†Û’ حضرت موسی   (ع) سے فرمایا :

اے موسی! اگر آسمانوں، ان کے آباد کرنے والوں (جو امر کی تدبیر کرنے والے ھیں)اور ساتوں زمینوں کو ایک پلڑے میں رکھا جائے اور((لا إلہ إلا اللّٰہ)) کو دوسرے پلڑے میں تو یہ دوسرا پلڑا بھاری هوگا۔[63] (یعنی اس کلمے کے مقابلے میں تمام مادّیات ومجرّدات سبک وزن ھیں)۔

عدل

خداوندِ متعال کی عدالت کو ثابت کرنے کے لئے متعدد دلائل ھیں جن میں سے ھم بعض کاتذکرہ کریں گے:

۱۔ھر انسان، چاھے کسی بھی دین ومذھب پر اعتقاد  نہ رکھتاہو،  اپنی فطرت Ú©Û’ مطابق عدل Ú©ÛŒ اچھائی Ùˆ حسن اور ظلم Ú©ÛŒ بدی Ùˆ برائی Ú©Ùˆ درک کر سکتا ھے۔حتی اگر کسی ظالم Ú©Ùˆ ظلم سے نسبت دیں تو اس سے  اظھار نفرت اور عادل کھیں تو خوشی کا اظھار کرتا ھے۔شہوت وغضب کا تابع ظالم فرمانروا، جس Ú©ÛŒ ساری محنتوں کا Ù†Ú†ÙˆÚ‘ نفسانی خواھشات کا حصول  Ú¾Û’ØŒ اگر اس کا واسطہ محکمہ عدالت سے Ù¾Ú‘ جائے اور قاضی اس Ú©Û’ زور Ùˆ زر Ú©ÛŒ وجہ سے اس Ú©Û’ کسی دشمن کا حق پامال کر Ú©Û’ اس ظالم Ú©Û’ حق میں فیصلہ دے دے، اگر چہ قاضی کا فیصلہ اس Ú©Û’ لئے باعث مسرت وخوشنودی Ú¾Û’ لیکن اس Ú©ÛŒ عقل وفطرت Ø­Ú©Ù… Ú©ÛŒ بدی اور حاکم Ú©ÛŒ پستی Ú©Ùˆ سمجھ جائیں گے۔جب کہ اس Ú©Û’ برعکس اگر قاضی اس Ú©Û’ زور Ùˆ زر Ú©Û’ اثر میں نہ آئے اور حق وعدل کا خیال کرے، ظالم اس سے ناراض تو هو گا لیکن فطرتاً وہ قاضی اور اس Ú©Û’ فیصلے Ú©Ùˆ احترام Ú©ÛŒ نظر سے دیکھے گا۔

تو کس طرح ممکن ھے کہ جس خدا نے فطرت انسانی میں ظلم کو برا اور عدل کو اس لئے اچھا قرار دیا هو تاکہ اسے عدل کے زیور سے مزین اور ظلم کی آلودگی سے دور کرے اور جو <إِنَّ اللّٰہَ یَاٴْمُرُ بِالْعَدْلِ

وَاْلإِحْسَانِ>[64]، <قُلْ اٴَمَرَ رَبِّی بِالْقِسْطِ>[65]،<یَادَاودُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیْفَةً فِی اْلاٴَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلاَ تَتَّبِعِ الْھَوٰی>[66]جیسی آیات کے مطابق عدل کا حکم دے وہ خود اپنے ملک وحکم میں ظالم هو؟!



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 next