شيعه مذهب کا آغاز



البتہ شيعہ شروع سے ھى وقتى سياست کے محکوم ھوگئے تھے ليکن صرف اعتراضات کے ذريعے کوئى کام انجام نھيں دے سکتے تھے ـادھر حضرت على عليہ السلام بھى مسلمانوں اور اسلام کى خاطر اور کافى طاقت و قوت نہ رکھنے کى وجہ سے ايک خونى انقلاب برپا نہ کرسکے ليکن يہ اعتراض کرنے والے اپنے عقيدے اورنظريے کے لحاظ سے اکثريت کے تابع نہ ھوئے اور پيغمبر اکرم کى جانشينى اورعلمى رھبرى کو حضرت علي(ع) کاحق سمجھتے نيز علمى ومعنوى مرکز صرف حضرت علي(ع) کوھى مانتے رھے اورساتھ ھى دوسروں کو بھى حضرت علي(ع) کى طرف دعوت ديتے رھے ـ

جانشينى اورعلمى رھبرى کے دومسائل

اسلامى تعليمات کے مطابق شيعوں نے جو کچھ سيکھا تھا اس پرمعتقد تھے ـ جو چيز معاشرے کے لئے سب سے زيادہ اھميت کى حامل تھى وہ يہ تھى کہ اسلامى تعليمات اور دينى ثقافت کو واضح کياجائے اور دوسرے مرحلے ميں ان کومعاشرے ميں مکمل طورپر نافذ اور جارى کياجائے ـ

دوسرے يہ کہ ايک دينى حکومت ، حقيقى اسلامى انتظام اور نظم ونسق کو معاشرے ميں مضبوط اور محفوظ رکھاجائے اور اسے نافذ کياجائے اس طرح کہ لوگ خدا کے سواکسى اور کى پرستش نہ کريں اور مکمل آزادى اور انفرادى و اجتماعى انصاف سے بھرہ ور ھوں ـ يہ دونوں کام اس شخص کے ھاتھوں انجام پائيں جس کى عصمت او ر حفاظت خداوند تعاليٰ کى طرف سے ھو ـ ورنہ ممکن ھے ايسے اشخاص اقتدار و حکومت اورعلمى رھبرى کواپنے ھاتہ ميں لے ليں جو اپنے فرائض کى ذمہ دارى ميں فکرى انحراف ياخيانت سے محفوظ نہ ھوں اور اس طرح اسلام کى آزادى بخش عادلانہ حکومت اور ولايت آھستہ آھستہ استبدادى سلطنت اور قيصر و کسريٰ جيسى حکومتوں ميں تبديل ھوکر رہ جائے ـمقدس دينى علوم او رديگر معارف ميں تبديلياں پيداھوجائيں اور بوالھو س و خود غرض دانشورياعام افراد ان ميں اپنى مرضى سے کمى بيشى کرديںـلھذاايک ايسے شخص کى ضرورت تھى جس کى تصديق پيغمبر اکرم نے کى ھو او ر وہ شخص اپنے قول و فعل ميں پاک اور پختہ ھو، اس کے طور طريقے کتاب خدا اورسنت رسول کے ساتھ مکمل مطابقت رکھتے ھوںـ ايسے شخص صرف حضرت علي(ع) تھے ـ (8)

اگر چہ اکثر لوگ کھتے ھيں کہ اگر قريش حضرت علي(ع) کى خلافت حقہ کے مخالف تھے تو اس صورت ميں ضرورى تھا کہ مخالفوں کو حق کى اطاعت پر مجبور کياجاتا اور سرکش لوگوں کو سر اٹھانے کى اجازت نہ دى جاتى نہ کہ قريش کى مخالفت کے ڈر سے حق کو پامال کياجاتا ، جيسا کہ خليفۂ اول نے ان لوگوں کے ساتھ جنگ کى تھى جنھوں نے زکوٰة دينا بند کردى تھى ليکن زکوٰة لينے سے چشم پوشى نھيں کى تھى ـ

حقيقت يہ ھے کہ جس چيز نے شيعوں کو انتخابى خلافت کے قبول اور تسليم نہ کرنے پرابھارا وہ يہ تھى کہ ان کو بعد ميں رونما ھونے والے ناگوار اتفاقات و حوادث کاخوف تھا يعنى اسلامى حکومت کے نظام اور طريقوں ميں بدعنوانى اور فساد کے نتيجے ميں دين مبين اسلام کى بنيادى تعليمات ميں خرابى لازمى نظر آتى تھى ـ اتفاق سے بعد ميں رونما ھونے والے حوادث بھى اس عقيدے يا پيشينگوئى کو تقويت دے رھے تھےـ جس کے نتيجے ميں شيعہ جماعت اپنے عقيدے پر زيادہ سے زيادہ مضبوط ھوتى جارھى تھى يا يوں کھاجائے کہ ظاھرى طور پر ايک چھوٹى سى جماعت ايک بڑ ى اکثريت کو اپنے اندر ضم کرنے چلى تھى ليکن باطنى طور پر اھلبيت(ع) سے اسلامى تعليمات کے حصول اور اپنے طريقے کى طرف لوگوں کو دعوت دے رھى تھى اور اپنے عقائد پرمصر تھى مگر اس کے ساتھ ھى اسلامى طاقت کى ترقى اور حفاظت کے پيش نظر حکومت کے ساتھ اعلانيہ مخالفت بھى نھيں کرتى تھى حتى کہ شيعہ ،اکثريت کے دوش بدوش جھاد پر جاتے اوررفاہ عامہ کے کاموں ميں حصہ ليتے تھے اور خود حضرت علي(ع) اسلام کے مفادات کى خاطر لوگوں کى رھنمائى کيا کرتے تھے (9)

انتخابى خلافت کا سياسى طريقہ اور اسکا شيعى عقيدے کے ساتھ اختلاف

شيعہ جماعت کا عقيدہ تھاکہ اسلام کى آسمانى اور خدائى شريعت جسکا سارا مواد خدا کى کتاب اور پيغمبر اکرم (ص)کى سنت ميں واضح کيا جاچکا ھے ، قيامت تک اپنى جگہ پر قائم ودائم ھے اور ھرگز قابل تغيير نھيں ھے ـ لھذا اسلامى حکومت کے پاس اس قانون شريعت کو مکمل طور پر نافذ کرنے کے لئے کوئى عذر يابھانہ نھيں ھے کہ اس شريعت کى خلاف ورزى کرے ـاسلامى حکومت کا اولين فرض يہ ھے کہ شريعت اسلامى کى حدود ميں مشورے اورمصلحت وقت کے پيش نظر فيصلے کرے اور قدم اٹھائے ليکن شيعوں کى سياسى و مصلحتى بيعت اور اسى طرح کاغذ ، قلم اور دوات کا واقعہ جو پيغمبر اکرم (ص) کى زندگى کے آخرى ايام ميں پيش آيا تھا ، سے ظاھر تھاکہ انتخابى خلافت کے طرفداروں اور اس کے چلانے والوں کا اعتقاد تھا کہ خدا کى کتاب (قرآن مجيد )بنيادى قانون کى طرح محفوظ رھے ليکن پيغمبراکرم (ص) کى احاديث اور سنت اپنى جگہ پر ثابت نھيں سمجھتے ان کا عقيدہ تھا کہ اسلامى حکومت ، زمانے کى ضروريات او ر مصلحت وقت کے سبب اسلامى احکام کے نفاذ کو نظر انداز کرسکتى ھے اور يہ عقيدہ ان بھت سى احاديث وروايات کے ذريعے جو بعد ميں نقل ھوئيں ، صحابہ کے حق ميں ثابت ھوگياتھا کہ وہ مجتھد ھيں اور اگر اجتھاد يا مصلحت انديشى ميں اختلاف کريں تومجبورھيں اور خطاکريں تو معذور ـ اس کا اھم ترين نمونہ وہ ھے جبکہ خليفہ کا گورنر خالد بن وليد رات کے وقت ايک مشھور مسلمان (مالک بن نويرہ) کے گھر مھمان ھوا اور پھر موقع پاکر اس کو قتل کرديا ـ اس کا سرکاٹ کر بھٹى ميں جلاديا اور پھر اسى رات مالک بن نويرہ کى بيوى کے ساتھ اس نے زنا کيا ـ اس شرمناک واقعے کے بعد چونکہ خليفۂ وقت کوايسے گورنرکى ضرورت تھى لھذا شريعت کى حد کو خالد بن وليد کے حق ميں جارى نہ کيا گيا ـ (10) اسى طرح اھلبيت(ع) کو خمس کا حصہ نہ ديا گيا، پيغمبر اکرم کى احاديث کا لکھنا بالکل ممنوع کرديا گيا ، اگر کوئى حديث کسى جگہ لکھى ھوئى نظر آتى يا کسى سے ملتى تواس کو فوراً ضبط کرکے جلا دياجاتا(11)ـ يہ ممنوعيت تمام خلفا ئے راشدين کے زمانے سے ليکر عمربن عبد العزيز اموى خليفہ (99تا102ھجرى )کے عھد تک جارى رھي (12)ـ خليفہ دوم کے زمانے ميں يہ سياست بالکل واضح ھوگئى تھى ـ خليفۂ وقت نے بعض شرعى احکام مثلاً حج تمتع ، نکاح متعہ اوراذان ميں” حى على خير العمل“ کھنا ممنوع قرار ديدياتھاـ تين طلاق دينے کى رسم نافذ کى گئى اور ايسے ھى کئى دوسرے احکامـ(13) ان کى خلافت کے دوران بيت المال کا حصہ عوا م کے درميان فرق اور اختلاف سے تقسيم ھو ا (14)جس کے نتيجے ميں عجيب طبقاتى اختلاف اور خطرناک خونى مناظر سامنے آئے ـ ان کے زمانے ميں معاويہ، شام ميں قيصروکسريٰ جيسے شاھانہ ٹھاٹ باٹ اور رسم و رواج کے ساتھ حکومت کرتا تھا ـيھاں تک کہ خليفہ ٴوقت بھى اسے کسريٰ عرب (عرب کا بادشاہ )کھہ کر خطاب کياکرتا اور کبھى اس کے اس حال پر اعتراض نہ کرتاتھا ـ

خليفہٴ دوم 23 ھ ميں ايک ايرانى غلام کے ھاتھوں قتل ھوئے اورچھ رکنى کميٹى کى اکثريت رائے سے جو خليفہ دوم کے حکم سے تشکيل پائى تھى ،خليفۂ سوم نے زمام امور سنبھالى ـانھوںنے اپنے عھد خلافت ميں اپنے اموى خويش واقارب کو لوگوں پر مسلط کرديا تھا اور اس طرح حجاز ، عراق ، مصر اورتمام اسلامى ممالک ميں عنان حکومت ان کے ھاتہ ميں سونپ دى تھي (15)ـ انھوں نے لاقانونيت کى بنيادرکھى اور آشکار ا طور پر ظلم وستم اور فسق وفجور اور اسلام کى خلاف ورزى اسلامى حکومت ميں شروع کردى تھيـ دارالخلافہ ميں ھر طرف سے شکايتوں کے طومار آنے لگے ليکن خليفہ اپنى اموى کنيزوں ، لونڈيوں اور خاص کر مروان بن الحکم(16)کے زير اثر ان شکووں اور شکايتوں پرتوجہ ھى نہ کرتے تھے اور اس طرح ظلم وستم کا انسداد کرنے کى نوبت ھى نہ آتى تھى بلکہ کبھى کبھى حکم ديتے کہ شکايت کرنے والوں پر مقدمہ چلاياجائے اورآخر کار 35ھ ميں لوگوں نے ان کے خلاف مظاھرے کئے اور چند روز تک ان کے مکان کو گھيرے رکھا اور پھر ماردھاڑ کے بعد ان کو قتل کردياگيا ـ خليفہ ٴسوم نے اپنے دور ان خلافت ميں شام کى حکومت معاويہ کو دے رکھى تھى جو ان کے اموى خويش واقارب ميں بھت ھى اھم شخص تھا ـ وہ معاويہ کو زيادہ سے زيادہ مدد ديتے اوراس کو مضبوط کيا کرتے تھے ـ در اصل شام خلافت کا اصلى مرکز بن چکا تھا اور مدينہ ميں صرف نا م کى حکومت باقى رہ گئى تھى ـ(17)خليفہ ٴاول کى خلافت اکثريت صحابہ کى رائے اور انتخاب سے معين ھوئى تھى اور خليفہ دوم ، اول کى وصيت سے منتخب ھوئے اور خليفہ سوم چھ رکنى مشاورتى کميٹى کى رائے کے ساتھ انتخاب کئے گئے تھے اس کميٹى کا دستور العمل اورمنشو ربھى خود خليفۂ دوم نے ترتيب ديا تھا ـمجموعى طور پر تين خلفاء کا انتظام حکومت دارى ،جنھوں نے 25 سال تک حکومت کى تھى ، يوں تھا کہ اسلامى قوانين ، اجتھاد اور مصلحت وقت کے مطابق معاشرے ميں نافذ کئے جائيں اور اس مصلحت بينى کو خود خليفۂ وقت تشخيص دے ـ

اس زمانے ميں اسلامى علوم ومعارف کاطريقہ يہ تھا کہ صرف قرآن کو وہ بھى کسى تفسير اور غور و خوض اور معانى کو سمجھے بغير پڑھا اور پيغمبر اکرم کى احاديث کو لکھے بغير ھى بيان کياجائے يعنى سننے يابتانے سے تجاوز نہ کيا جائے ـ قرآن کريم کى کتابت پربھى اجارہ دارى تھى ـ حديث کى کتابت تو ممنوع ھى تھى ـ(18)جنگ يمامہ جو 12 ھ ميں ختم ھوئى تھى اور اس جنگ ميں صحابہ اور قرآن کے قاريوں کى ايک بھت بڑى تعداد شھيد ھوگئى تھى ،کے بعد عمر بن الخطاب نے خليفہ ٴاول کو تجويز پيش کى کہ قرآنى آيات کو ايک مصحف (جلد )ميں جمع کردياجائے کيونکہ خدانخوستہ اگر ايسى ھى ايک اورجنگ رونما ھوگئى اورباقيماندہ قارى بھى شھيد ھوگئے تو قرآن مجيد ھمارے ھاتھوں سے نکل جائے گاـلھذا ضرورى ھے کہ قرآنى آيات کو ايک مصحف (جلد )ميں جمع کردياجائےـ (19)قرآن مجيد کے بارے ميں تويہ فيصلہ کردياگيا مگر احاديث رسول اکرم (ص)جوقرآن مجيد کے بعد دوسرے درجے پرآتى ھيں، کے بارے ميں کوئى اقدام نھيں کياگياجبکہ احاديث کو بھى وھى خطرہ در پيش تھايعنى معانى اورکتابت ميں کمى بيشى ، جعل ، فراموشى اور دست بردسے محفوظ نھيں تھيں ليکن احاديث شريف کى حفاظت کے لئے کوئى کوشش نہ کى گئى بلکہ احاديث کى کتابت تک کو ممنوع قراردے دياگياـجب بھى کوئى لکھى ھوئى حديث ھاتہ لگتى تواس کو جلا ديا جاتا تھا ، يھاں تک کہ اسلامى احکام و ضروريا ت مثلا ً نماز کے بارے ميں بھى متضاد اور متعدد احاديث وروايات پيدا ھوگئيںتھيں اسى طرح دوسرے تمام علمى موضوعات کے متعلق بھى کوئى خاطرخواہ اقدا م نہ کياگيا ـ قرآن مجيد او ر احاديث نبوى ميںاجتھادوتفقہ کرنے کے بارے ميں جو احترام اور تاکيد موجود ھے اور علوم کو وسعت وترقى دينے پر جس قدر زور ديا گيا ھے وہ سب کے سب بے اثر ھوکر رہ گيا ـ اکثر لوگ اسلامى فوجوں کى پے درپے فتوحات ميں سرگرم اور بے اندازہ مال غنيمت سے راضى اورخوش تھے جو ھر طرف سے جزيرة العرب ميں آرھاتھا ، لھذا اب خاندان رسالت مآب کے علوم کى طرف کوئى توجہ نہ تھى جس کے بانى حضرت علي(ع) تھےـ پيغمبر اکرم نے ان کو سب سے زيادہ عالم اور قرآن و اسلام کا شناسا کھہ کر لوگوں سے متعارف کرايا تھا ـ حتيٰ کہ قرآن شريف کو جمع کرنے کے واقعے ميں (باوجوديہ کہ سب جانتے تھے کہ آپ نے رسول اکرم کى رحلت کے بعد ايک مدت تک گوشۂ عزلت ميں بيٹھ کر قرآن مجيد کو ايک مصحف ميں جمع کرديا تھا )بھى آپ کوشامل نہ کيا گيا (20)، حتيٰ کہ آپ کا نام تک نہ ليا گياـ يہ اور ايسے ھى دوسرے امور تھے جو حضرت علي(ع) کے پيروکاروں کواپنے عقيدے ميں زيادہ سے زيادہ راسخ اور مضبوط کررھے تھے اور ان کو واقعات سے متعلق زيادہ ھوشيا ر بنا رھے تھے ـ اس طرح روز بروز يہ لوگ اپنى سرگرميوں ميں اضافہ کررھے تھےـ حضرت على عليہ السلام بھى جو تمام لوگوں کى تربيت کرنے سے قاصر تھے صرف اپنے خاص لوگوں کى تربيت پر توجہ دے رھے تھے ـ

ان پچيس بر سوں ميں حضرت علي(ع) کے چار خاص اصحاب اور دوستوں ميں سے تين وفات پاگئے تھے جوھر حال ميں آپ کى پيروى ميں ثابت قدم رھے تھے يعنى سلمان فارسى ، ابوذر غفارى اور مقداد ليکن اس مدت ميں اصحاب اور تابعين کى ايک خاصى بڑى جماعت حجاز ، يمن ، عراق اور دوسرے ممالک ميں حضرت علي(ع) کے پيروکاروں ميں شامل ھوگئى تھى اورآخر کار خليفہ ٴسوم کے قتل کے بعد ھرطرف سے عوام نے آپ کى طرف رجوع کرنا شروع کرديا تھا يھاں تک کہ آپ کے ھاتہ پر بيعت کرکے آپ کو خلافت کے لئے انتخاب کرليا ـ

حضر ت علي(ع) کى خلافت اور آپ کا طريقہٴ کار

حضرت علي(ع) کى خلافت 35 ھ کے آخر ميں شروع ھوئى اور تقريباً چار سال نو مھينے جارى رھى ـ حضرت علي(ع) نے اپنى خلافت کے دوران پيغمبر اکرم (ص)کى سنت کو رائج کيا اور خود بھى اسى طريقہ پر کار بندرھے (21)ـ اسلام ميں ان اکثر تبديليوں کو جو پھلے خلفائے راشدين کے زمانہ ميں پيدا ھوگئى تھيں ،اپنى اصلى حالت ميں واپس لائے اور اس کے ساتھ ھى ظالم اور نالائق حاکموں کو جو ايک مدت سے عنان حکومت اپنے ھاتھوں ميں لئے ھوئے تھے معزول کرديا (22)يعنى حقيقت ميں آپ کى حکومت ايک انقلابى تحريک تھى مگر آپ کے سامنے مشکلات ومسائل کا ايک ڈھير موجود تھا ـ



back 1 2 3 4 5 6 next