نبوت عامہ



انسان فطرت و عقل، محدود حوائج رکھنے والے جسم اور نا محدود خواھشات رکھنے والی روح سے مرکب ھے۔ترقی اور بلندی میں فرشتوں سے بڑھ کر، جب کہ انحطاط وتنزل کے اعتبار سے جانوروں سے پست تر ھے۔

((عن عبداللّٰہ بن سنان، قال سالت اٴبا عبداللّٰہ جعفر بن محمد الصادق علیھما السلام، فقلت : الملائکة افضل ام بنو آدم ØŸ فقال   (ع) : قال امیر الموٴمنین علی بن ابی طالب   (ع) :ان اللّٰہ عزوجل رکب فی الملائکة عقلاً بلا شھوة، ورکب فی البھائم شھوة بلا عقل،و رکب فی بنی آدم کلیھما، فمن غلب عقلہ شھوتہ فھو خیر من الملائکة، ومن غلبت شھوتہ عقلہ فھو شر من البھائم))[1]

اور اس تخلیق میں اتنی تازگی Ú¾Û’ کہ اس پیکر انسان Ú©Ùˆ ھر طرح سے مکمل کرنے اور اس میں حق جل Ùˆ علیٰ سے منسوب روح پھونکنے Ú©Û’ بعد[2]ØŒ اس مخلوق Ú©Ùˆ تمام موجودات Ú©Û’ مقابلے میں ممتاز وجود سے سر فراز کیا، جس Ú©ÛŒ عظمت اس آیہٴ کریمہ  <ثُمَّ اٴَنْشَاٴْنَاہُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اٴَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ>[3] سے روشن Ú¾Û’Û”

انسان جانتا ھے کہ اسے محدود مادی زندگی کے لئے خلق نھیں کیا گیا، کیونکہ حکمت کا تقاضا یہ ھے کہ اوزار وآلات کو کام سے متناسب اور خلقت کی کیفیت کو ھدف ومقصد کے مطابق هونا چاہئے۔

اگر انسان کی زندگی اسی دنیا تک محدود هوتی تو شہوت،غضب اور ادراکِ حیوانی جو اس زندگی کے لذائذ کو جذب اور منفورات کو دفع کرتے ھیں، اس کے لئے کافی تھے۔عقل، جو لامحدود علم اوراخلاقی وعملی کمالات سے آراستگی کی خواھاں وعاشق ھے اور ایک مقام ومرتبے کو پانے کے بعد بالاتر مقام ومرتبے کی پیاسی فطرت، کا انسان کو عطا کیاجانا اس بات کی دلیل ھے کہ وہ لامحدود زندگی کے لئے خلق هوا ھے، جیسا کہ حدیث نبوی میں ھے:((ما خلقتم للفناء بل خلقتم للبقاء و إنما تنقلون من دار إلی دار))[4]

حکیم علی الاطلاق کی حکمت کا تقاضا یہ ھے کہ جس استعداد کو مخلوقاتِ کائنات میں قرار دیا ھے، اس قابلیت کو فعلیت تک پھنچانے کے عوامل بھی مھیا کرے،کیونکہ فعلیت کا روپ نہ دھارنے والی توانائی اور مطلوب کو حاصل نہ کرسکنے والی طلب بے کا ر ولغو ھیں۔

جس لا محدود علم وقدرت Ù†Û’ بیج Ú©Ùˆ پھلنے پھولنے Ú©ÛŒ استعداد وصلاحیت دی Ú¾Û’ اس Ù†Û’ پانی، خاک اور هوا Ú©Ùˆ بھی خلق کیا Ú¾Û’ØŒ جو بیج Ú©Û’ پھلنے پھولنے میں موثر عوامل ھیں۔اگر انسانی نطفہ Ú©Ùˆ مختلف اعضاء وجوارح میں تبدیل هونے Ú©ÛŒ استعداد وصلاحیت دی Ú¾Û’ تو اس استعداد Ú©Ùˆ فعلیت تک پھنچانے Ú©Û’ لئے رحمِ مادر Ú©Ùˆ خلق کیا Ú¾Û’ØŒ لہٰذ ا کیسے ممکن Ú¾Û’ کہ عقل کا بیج، جس کا ثمر علم وعمل ھیں اور روح Ú©ÛŒ لطافت Ú©Ùˆ تو خلق کردے، جس میں علمی،عملی Ùˆ اخلاقی کمال اور خدا Ú©ÛŒ معرفت حاصل کرنے Ú©ÛŒ استعداد وصلاحیت هو، لیکن عقل Ú©Û’ بیج Ú©Ùˆ ثمر تک Ù¾Ú¾Ù†Ú†Ù†Û’  اوراستعدادِ روح Ú©Û’  فعلیت تک Ù¾Ú¾Ù†Ú†Ù†Û’ Ú©Û’ نہ تو وسائل مھیا کرے اور نہ Ú¾ÛŒ اس Ú©ÛŒ  مقصدِ خلقت Ú©ÛŒ جانب ھدایت کرے ØŸ!

آیا ممکن ھے کہ <اٴَعْطیٰ کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہ ثُمَّ ھَدیٰ>[5] جیسے عمومی قانون سے انسان مستثنی هو ؟!

یھیںسے یہ بات واضح هوجاتی ھے کہ انسان کو مقصدِ خلقت تک پھنچانے کے لئے الٰھی ھدایت ضروری ھے۔

دوم: انسان فطری طور پر اپنے خالق Ú©ÛŒ تلاش وجستجو میں Ú¾Û’ اور یہ جاننا چاہتا Ú¾Û’ کہ اسے عدم سے وجود میں کون لایا Ú¾Û’ØŒ یہ اعضاء Ùˆ جوارح  اسے کس Ù†Û’ عطا کئے ھیں او ر نعمتوں Ú©Û’ دسترخوان پر اسے کس  Ù†Û’ بٹھایا Ú¾Û’ØŒ تاکہ بحکم عقل، منعمِ حقیقی Ú©ÛŒ شکر گذاری جیسی  ذمہ داری Ú©Ùˆ انجام دے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next