عبد الله بن عمر کی اصليت



بہتر ہے کہ عبد الله کے اس واقعے سے مزید آگاہی حاصل کرنے کے لئے اس کے چہرے سے نقاب الٹ کر دیکھیں کہ اس شخص کی اصلیت اور اس کی حقیقت کیا ہے جو ایک طرف تو حسین ابن علی کو یزید کے ساتھ صلح کی تجویز پیش کرتا ہے اور دوسری طرف ریاکاری سے کام لیتے ہوئے سینہٴ حسین کے بوسے لیتا ہے اور ان کے غم میں مگرمچھ کے آنسو بہا رہا ہے۔ ایک طرف تو خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کر رہا ہے کہ حسین کو اسلام و قرآن کی راہ میں شہید کر دیا جائے گا اور جو شخص بھی ان کی مدد نہیں کرے گا وہ ذلت و خواری کا شکار ہوگا اور باوجودیکہ امام صراحتا ًفرما رہے ہیں کہ عبد الله! خدا سے ڈرو اور میری مدد ترک نہ کرو مگر وہ نہ صرف خود نصرت امام سے سرکشی کرتا ہے بلکہ مدینہ پہنچتے ہی یزید سے اعلانِ وفاداری کرتا ہے اور حزب اللہ کی بجائے حزبِ شیطان سے جا ملتا ہے۔ جی ہاں ہمیں عبد الله بن عمر کا اصلی چہرہ پہچاننا چاہیئے تاکہ اپنے زمانے کے ”عبد الله بن عمر“ پہچان سکیں جو ظاہری طور پر تو امام کی نصرت کی بجائے گریہ و زاری کرتے ہیں لیکن اندرونی طور پر یزیدی اور طاغوتی طاقتوں سے ہم پیمان ہوتے ہیں اور اندرون خانہ انہی کے ہمنوا ہوتے ہیں۔

عبد الله ابن عمر کے جواب میں

یٰا اَبٰا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ اَمٰا عَلِمْتَ اَنَّ مِنْ ھَوٰانِ الدُّنْیٰا عَلَی اللّٰہِ اَنَّ رَأْسَ یَحْیَی بْنِ زَکَرِیّٰا اُھْدِیَ اِلٰی بَغِیٍّ مِنْ بَغٰا یٰا بَنی اِسْرٰائیلَ؟ اَمٰا تَعْلَمُ اَنَّ بَنی اِسْرٰائیلَ کٰانُوا یَقْتُلُونَ مٰا بَیْنَ طُلُوعِ الْفَجْرِ اِلٰی طُلُوعِ الشَّمْسِ سَبْعینَ نَبِیًّا ثُمَّ یَجْلِسُونَ فی اَسْوٰاقِھِمْ یَبیعُونَ وَ یَشْتَرُونَ کَاَنْ لَمْ یَصْنَعُوا شَیْئاً فَلَمْ یُعَجِّلِ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ بَلْ اَمْھَلَھُمْ وَ اَخَذَھُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ اَخْذَ عَزیزٍ ذِی انْتِقٰامٍ اِتَّقِ اللّٰہَ یٰا اَبٰا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَلاٰ تَدَعَنَّ نُصْرَتی۔۱ ترجمہ و توضیح : عبد الله ابن عمر اپنے کسی ذاتی کام اور عمرے کی غرض سے مکہ میں موجود تھا اور انہی ایام میں مدینہ واپسی کی اطلاع ملی۔ وہ امام کے حضور پہنچا اور دوران گفتگو یہ تجویز پیش کی کہ آپ یزید کے ساتھ صلح کر لیں۔ اس نے امام کو طاغوت کی مخالفت کرنے اور اس سے جنگ کرنے کے خطرناک نتائج سے آگاہ کیا۔ اور خوارزمی کے بقول اس نے کہا: ”اے ابا عبد الله لوگوں نے اس شخص کی بیعت کر لی ہے۔ درہم و دینار اس شخص کے پاس ہیں لہٰذا لوگ مجبوراً اس کی طرف آئیں گے۔ اور اس خاندان کو آپ کے ساتھ جو دشمنی ہے اس کی وجہ سے میں ڈرتا ہوں کہ اگر آپ اس کی مخالفت کریں گے تو شہید کر دیئے جائیں گے اور کچھ مسلمان بھی اس راہ میں قربان ہو جائیں گے۔ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حسین قتل کر دیئے جائیں گے اور اگر لوگوں نے ان کی مدد نہ کی تو وہ ذلت و خواری میں مبتلا ہوں گے لہٰذا میری تجویز یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کی طرح آپ بھی صلح اور بیعت کی راہ اپنائیں اور مسلمانوں کا خون بہانے سے ڈریں“۔ امام مختلف افراد سے گفتگو کے وقت مخاطب کی طرز، فکر، اس کے شعور اور ذہنی سطح کو دیکھ کر مناسب جواب دیا کرتے تھے۔ عبد الله ابن عمر کی اس تجویز کے جواب میں امام نے فرمایا: ”اے ابا عبد الرحمن کیا تم نہیں جانتے کہ دنیا اس قدر حقیر اور پست ہے کہ بنی اسرائیل کے زناکار اور ناپاک ترین افراد کے سامنے عظیم ترین انسان اور عظیم الشان پیغمبر خدا کا کٹا ہوا سر لایا گیا؟؟!! عبد الله! کیا تم نہیں جانتے کہ بنی اسرائیل خداوند عالم د کے اس قدر مخالف تھے کہ اول صبح ستر پیغمبروں کو قتل کرتے اور پھر خرید و خروخت اور دنیا کے روزِمرہ کے کاموں میں اس طرح مشغول ہو جاتے تھے گویا انہوں نے چھوٹا سا گناہ بھی نہیں کیا۔ خداوند عالم د نے انہیں کچھ دن تو مہلت دی لیکن بالآخر انہوں نے اپنے اعمال کی سزا بھگتی اور خدائے قادر و منتقم کا انتقام انہیں شدید ترین صورت میں پہنچا“۔ پھر امام نے فرمایا: ”اے ابا عبد الرحمن! خدا سے ڈرو اور میری نصرت سے کنارہ کشی اختیار نہ کرو“۔ شی صدوق علیہ الرحمہ نقل فرماتے ہیں کہ جب عبد الله ابن عمر نے دیکھا کہ میری تجویز کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تو اس نے عرض کی: ”اے ابا عبد الله! میری خواہش ہے کہ مفارقت اور جدائی کی ان گھڑیوں میں آپ مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کے بدن کا وہ حصہ چوم لوں جسے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بوسہ دیا کرتے تھے۔ امام نے اپنا پیراہن اوپر کیا اور عبد الله ابن عمر نے آپ کے سینہٴ مبارک کا تین دفعہ بوسہ لیا، اور روتے ہوئے کہا: ﴿اَسْتَوْدِعُکَ یٰا اَبٰا عَبْدِِ اللّٰہِ﴾ ”اے ابا عبد الله میں آپ کو خدا کے سپرد کرتا ہوں آپ اس راہ میں شہید کر دیئے جائیں گے“۔