"حی علیٰ خیر العمل " كے جزء اذان ھونے كے سلسلہ میں علماء كے نظریات



"حی علی خیر العمل" كے اذان سے نكالنے كی وجہ

اب تك كی بحث سے یہ ثابت ھوگیا كہ "حی علی خیر العمل" پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے زمانہ میں اذان و اقامت كا جز تھا۔ خلیفہ ثانی نے اپنی خلافت كے دوران لوگوں كو یہ سمجھانے كی كوشش كی كہ خیر عمل، راہ خدا میں جھاد ھے۔ تاكہ لوگ جھاد كی طرف راغب ھوں اور اپنی پوری كوشش اسی میں صرف كریں۔ اور انھوں نے یہ گمان كیا كہ پانچوں وقت، نماز كے خیر عمل ھونے كی صدا ان كے مشن كے منافی ھے۔

بلكہ انھیں خوف پیدا ھوگیا كہ اگر یہ فقرہ اذان میں باقی رہ گیا تو لوگ جھاد سے رو گردانی كریں گے۔ كیونكہ جب لوگوں كو یہ معلوم ھوگا كہ نماز خیر عمل (سب سے اچھا عمل) ھے جب كہ اس میں سلامتی و سكون بھی ھے تو حصول ثواب كے لئے صرف اسی پر اكتفا كریں گے اور جھاد، جو كہ نماز سے كمتر درجہ ركھتا ھے، كا خطرہ مول لینے سے پرھیز كریں گے۔

لھذا انھوں نے مقدس، شرعی قوانین كے سامنے سر تسلیم خم كرنے كے بجائے اس (خود ساختہ) مصلحت كو مقدم كرتے ھوئے اس فقرہ كو اذان سے نكال دیا۔ (جیسا كہ قوشجی، جو كہ فرقۂ اشاعرہ كے علماء كلام كے ائمہ میں سے ھیں، نے شرح تجرید كی بحث امامت كے آخر میں وضاحت كی ھے۔)

چنانچہ خلیفہ ثانی نے منبر پر خطبہ دیتے ھوئے كھا: تین چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے زمانہ میں رائج تھیں اور میں ان سے منع كرتا ھوں، اور ان كو حرام قرار دیتا ھوں۔ اگر كوئی ان كو انجام دے گا تو میں اسے سزادوں گا "عورتوں سے متعہ كرنا، حج تمتع انجام دینا اور اذان میں "حی علی خیر العمل" كھنا۔

قوشجی نے اس كی اس طرح توجیہ كی ھے كہ اجتھادی مسائل میں ایك مجتھد كی دوسرے سے مخالفت كرنا بدعت نھیں ھے۔ 83

ابن شاذان اھل سنت و الجماعت كو مخاطب كرتے ھوئے فرماتے ھیں: رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی زندگی اور ابوبكر كی خلافت كے زمانہ میں نیز خلافت عمر كے اوائل تك اذان میں "حی علٰی خیر العمل" كھا جاتا تھا …عمر بن خطاب نے كھا كہ مجھے خوف ھے كہ "حی علی خیر العمل" كو سن كر لوگ نماز پر تكیہ كرلیں گے اور جھاد كو چھوڑ دیں گے۔ لٰھذا انھوں نے اذان سے "حی علی خیر العمل" كو نكالنے كا حكم دے دیا۔ 84

عكرمہ سے روایت ھے: حضرت عمر نے "حی علٰی خیر العمل" كو اذان سے خارج كرنے كا ارادہ اس احتمال كے تحت كیا كہ لوگ نماز پر اكتفا كرتے ھوئے جھاد كو ترك كردیں گے۔ اسی وجہ سے اس كو انھوں نے اذان سے حذف كردیا۔ 85

"ابن حاجب" كی كتاب "مختصر الاصول" كی شرح كے حاشیہ میں سعد الدین تفتا زانی نے ذكر كیا ھے كہ "حی علٰی خیر العمل" رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے زمانہ میں رائج تھا، حضرت عمر نے لوگوں كو حكم دیا كہ اسے اذان میں نہ كھیں، اس خوف سے كہ كھیں لوگ جھاد سے رو گردان ھوكر صرف نماز ھی پر اكتفا نہ كر بیٹھیں۔ 86

اس سلسلہ میں پھلا اشكال تو یہ ھے كہ اگر یہ فقرہ لوگوں كی جھاد سے سستی كا سبب تھا تو اصلاً شروع ھی سے نھیں ھونا چاھئے تھا اس لئے كہ یہ خطرہ دائمی تھا۔ اور اسی بنیاد پر اھل سنت نے اس كو آج تك چھوڑ ركھا ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next