تاریخ آل سعود



كتاب منتظم ناصری میں اس طرح تحریر ھے :

”جس وقت كربلائے معلی میں مومنین كے قتل عام كی خبر فتح علی شاہ ایران (جن كی بادشاھت كو ابھی چند ھی سال گذرے تھے) كو پهونچائی گئی، تو اس نے خبر كو سننے كے بعد اسماعیل بیك بیات كو بغداد كے والی سلیمان پاشا كے پاس بھیجا اور اس سے كھا كہ وھابیوں كے شركو ختم كرڈالو، سلیمان پاشا نے قبول كرلیا لیكن سیلمان بك اتفاق سے كچھ ھی دنوں كے بعد اس دنیا سے كوچ كرگئے۔

رضا قلی خان مذكورہ موضوع كو تفصیلی طور پر اس طرح نقل كرتے ھیں:

”جس وقت فتح علی شاہ اس خبر سے آگاہ هوئے، تو انھوں نے سب سے پھلے اسماعیل بیك بیات كو سلیمان پاشا كے پاس بھیجا اس كے بعداس نے حاج حیدر علی خان، حاج ابراھیم خان شیرازی كے بھتیجے جو عباس میرزا كے نائب الوزراء تھے ان كو مصر كا سفیر بناكر بھیجا اور ایك محبت بھرا خط جس كے ساتھ ایك خراسانی تلوار ”گوھر نشان“ محمد علی پاشا كے پاس بھیجی جو اس وقت مصر كے حاكم تھے اور اس سے درخواست كی كہ وھابیوں كے فتنہ كو دفع كرنے میں ھر ممكن كوشش كریں اور اگر ضرورت هو تو وھابیوں كا قلع قمع كرنے كے لئے ایران كا لشكر دریا اور خشكی كے راستہ سے نجد كی طرف بھیج دیاجائے۔

جس وقت ایران كا سفیر مصر پهونچا او رمحمد علی پاشا حقیقت ِ حال سے آگاہ هوا تو اپنے ربیب (بیوی كے ساتھ دوسرے شوھر كا بچہ) ابراھیم پاشا كو وھابیوں كے شر كو ختم كرنے كے لئے معین كیا تاكہ درعیہ شھر كو نیست ونابود كردے اور عبد اللہ بن مسعود كو گرفتار كركے زنجیر میں باندھ كر اسلامبول (عثمانی بادشاهوں كا پائے تخت) روانہ كرے، لیكن عثمانی بادشاہ كے حكم سے قتل هوگیا اور ایران كا سفیر اپنی جان بچاكر شام (سوریہ) كے راستہ سے تبریز (ایران كا شھر) میں وارد هوا اور عباس میرزا نائب السلطنہ كی خدمت میں پہنچا۔

ھمیں فتح علی شاہ كے اقدامات كا ذكرغیر ایرانیوں كی تحریروں میں نھیں ملا، اور ”سیاق تاریخ“ میں وضاحت كی جائے گی كہ محمد علی پاشا كا وھابیوں سے برسر پیكار هونا عثمانی بادشاہ كے حكم سے تھا لیكن پھر بھی یہ بات كھی جاسكتی ھے كہ اس سلسلہ میں فتح علی شاہ كے اقدامات بھی بے تاثیر نھیں تھے۔

حادثہ كربلا كے بعد عبد العزیز كا قتل

ماہ رجب المرجب1218ھ میں عبد العزیز امیر سعود كا باپ مسجد درعیہ میں نماز كے وقت قتل كردیا گیا اس كا قاتل عثمان نامی شخص ”عماریہ موصل“ علاقہ كا رہنے والا تھا اور اسے سعود بن عبد العزیز كو قتل كرنے كے لئے قربة الی اللہ بھیجا گیا تھا (سعود نے1216ھ میں كربلا شھر پر حملہ كركے قتل وغارت كیا تھا) لیكن چونكہ سعود كو قتل كرنا مشكل هورھا تھا، لہٰذا اس نے اس كے باپ عبد العزیز كا خاتمہ كر ڈالا، عثمان ایك فقیر كے بھیس میں شھر درعیہ میں داخل هوا اور اس نے اپنے كو ایك مھاجربتلایا اور بھت زیادہ عبادت اور زہد وتقویٰ كا اظھار كیا اور خود كو عبد العزیز كا مطیع اور فرمانبردار بتلایا،لہٰذا عبد العزیز بھی اس كو بھت چاہنے لگا اور اس كو بھت سا مال ودولت عطا كرنے لگا، لیكن عثمان كا مقصد تو صرف اس كو قتل كرنا تھا۔

نماز عصر كی ادائیگی كے وقت جب عبد العزیز سجدہ میں گیا تو قاتل تیسری صف میں كھڑا تھا اور اپنے ساتھ خنجر چھپائے هوئے تھا عبد العزیز كی طرف بڑھا اور اس كے پیٹ كو چاك كرڈالا، مسجد میں ھل چل مچ گئی بھت سے لوگ بھاگ نكلے اور بھت سے لوگ قاتل كے پكڑنے كے لئے اس كے پیچھے دوڑے، اس وقت عبد اللہ بن محمد بن سعود، یعنی عبد العزیز كے بھائی نے قاتل كو مار ڈالا اور عبد العزیز كو اپنے محل میں لے گیا لیكن كچھ ھی دیر كے بعد عبد العزیز اس دنیا سے چل بسا۔

ابن بشر صاحب عبد العزیز كے قتل كے واقعہ كے ذیل میں كھتے ھیں كہ عبد العزیز كا قاتل ایك قول كے مطابق كربلا كا رہنے والا شیعہ مذھب تھا، كیونكہ سعود نے جب كربلا پر حملہ كركے وھاں پر قتل وغارت كیا تو وہ شخص اپنے شھر میں هوئے قتل وغارت كا بدلے لینے كے لئے وھاں پہنچا وہ سعود كو قتل كرنا چاھتا تھا لیكن جب وہ سعود كو قتل نہ كرسكا، تو اس نے سوچا كہ سعود كو قتل كرنا تو مشكل ھے لہٰذا اس كے باپ عبد العزیز ھی كو كیوں نہ قتل كردیا جائے، اس كے بعد ابن بشر صاحب كھتے ھیں كہ یھی قول حقیقت سے نزدیك ھے۔ دائرة المعارف اسلامی میں بھی اس طرح تحریر ھے كہ عبد العزیز كا قاتل شیعہ مذھب اور عماریہ كا رہنے والا تھا۔

عبد العزیز كے قتل كے بعد اس كا بیٹا اور جانشین جس وقت مسجد میں نماز كے لئے جاتا تھا تو اپنے ساتھ چند افراد كو اپنی حفاظت كے لئے ركھتا تھا اور جب وہ نماز كے لئے كھڑا هوتا تھا تو یہ لوگ اس كے پیچھے كھڑے هوتے تھے تاكہ اس پر كوئی حملہ نہ كرسكے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 next