تاریخ آل سعود



مرحوم خالصیۺ صاحب نے اس درخواست پر عمل كرتے هوئے مختلف قبیلوں كے سرداروں كو تقریباً 150 ٹیلیگرام بھیجے جن میں انھیں كربلا میں مذكورہ تاریخ پر آنے كی دعوت دی گئی تھی اور خود بھی نھم شعبان كو كاظمین سے كربلا كے لئے روانہ هوگئے۔

اور اس طرح كربلا میں ایك عظیم كانفرس هوئی جس كی عراقی تاریخ میں نظیر نھیں ملتی، اس كانفرس میں مختلف قبیلوں كے لوگوں نے شركت كی، شركت كرنے والوں كی تعداد دو لاكھ (اور ایك قول كے مطابق تین لاكھ) كے نزدیك اندازہ لگایا جاتا تھا، یہ عظیم كانفرس در حقیقت عراق میں انگلینڈ سے قطع رابطہ كے لئے تھی۔

اس كانفرس كے متعدد جلسات دوسرے مقامات پر بھی هوئے، اور اس كا آخری جلسہ حضرت امام حسین ںكے صحن مطھر میں هوا، جس میں دو نسخوں میں قطعنامہ لكھا گیا اور دستخط كئے گئے تاكہ ایك نسخہ ملك فیصل كو دیا جائے اور ایك علماء كے پاس رھے۔

مذكورہ قطعنامہ كا خلاصہ اس طرح ھے كہ دستخط كرنے والے خود اپنی اور اپنے ان موكلین كی طرف سے جو ”جمعیة الاخوان“ والے مسئلے میں جو 12 سے پندرہ شعبان1240ھ تك جاری رھے،جمع هوئے۔

جمعیة الاخوان نے ھمارے مسلمان بھائیوں كا قتل عام اور مال واسباب كو غارت كیا اسی وجہ سے ھم لوگوں نے قاطعانہ طور پر یہ طے كرلیا ھے كہ روضات مقدسات كے تحفظ كے لئے ھر ممكن كوشش كری اورجمعیة الاخوان كے حملوں كو ناكام كرنے كے لئے ھر ممكن طریقے اپنائیں اور جمعیة الاخوان كے حملوں سے متاثر هوئے افراد كی ھر ممكن مدد كریں اور ان تمام چیزوں كا فیصلہ سب سے پھلے اعلیٰ حضرت ملك فیصل سے تعلق ركھتاھے لہٰذا ھم جنابعالی سے درخواست كرتے ھیں كہ اخوان كے قتل وغارت كے پیش نظر اس ملت كی ھر ممكن مدد كریں۔

ملك فیصل نے مذكورہ قطعنامہ كا نرم اور محبت آمیز جواب دیا، لیكن پھر بھی عراق كے حالات میں كوئی تبدیلی واقع نھیں هوئی، او رآخر كار مرحوم خالصی كو عراق سے مكہ اور وھاں سے ایران كے لئے جلا وطن كردیا گیا موصوف1243ھ میں مشہد مقدس میں اس دنیا سے چل بسے اور ان كو امام رضا ں كے جوار میں دفن كردیا گیا۔

مرحوم خالصیۺ كی جلا وطنی كے بعد نجف او ركربلا كے تقریباً تیس بزرگ عالموں كو (جو ایرانی الاصل تھے) ایران میں بھیج دیا گیا اور اس طرف سے نجدیوں كے عراق پر حملے بھی نھیں ركے، جیسا كہ نجدیوں نے كانون اول1924 میں عراق كے سرحدی علاقوں كے بعض قبیلوں پر حملہ كیا اور تقریباً 16 لوگوں كو قتل كیا اور بھت سے چوپایوں كو اٹھا لے گئے، اور اس حملہ كے چار دن كے بعد دوبارہ حملہ كیا اور بعض لوگوں كو قتل كیا اور تقریباً 150خیموں كو غارت كردیا۔

مذكورہ مطلب كے بارے میں چند توضیحات

1۔ مرحوم علامہ شیخ آقا بزرگ تھرانی نے حضرت آیت اللہ حاج میرزا حسین نائینی كے حالات زندگی میں اس طرح بیان كیا ھے :

” جب عراق پر انگریزوں كا قبضہ هوا اس وقت ملك فیصل بادشاہ تھے،اور یہ طے پایا كہ مجلس شورائے ملی (پارلیمنٹ) تشكیل دیا جائے اور وزیروں كا انتخاب كیا جائے، تو اس وقت آیت اللہ نائینی، آیت اللہ آقا سید ابو الحسن اصفھانی، آقای شیخ مہدی خالصی اور سید محمد فیروز آبادی نے انتخابات كے طریقہٴ كار پر اعتراضات كئے، چنانچہ انھیں اعتراضات كی بدولت شیخ مہدی خالصی كو ایران جلا وطن كردیا گیا،568 یہ دیكھ كر شیعہ حضرات میں جوش وولولہ بھڑك اٹھا، نجف اور كربلا كے علماء نے انجمن سے گفتگو كی جس كے بعد یہ طے هوا كہ ھم لوگ بھی اعتراض كے طور پر عراق سے چلے جائیں،چنانچہ مرحوم نائینی او رمرحوم اصفھانی نے ایران مھاجرت كی اور قم میں سكونت اختیار كرلی، اس وقت اس شھر (قم) كے رھبر آیت اللہ آقائے شیخ عبد الكریم یزدی حائری تھے، چنانچہ موصوف نے ان لوگوں كا بھت اكرام واحترام كیااور اپنے شاگردوںسے عرض كیا كہ ان لوگوں كے درس میں شركت كریں،عراق كے حالات صحیح هوگئے تویہ دونوں عالم دین نجف واپس چلے گئے۔

2۔ پھلی عالمی جنگ كے بعد عراق پر انگریزوں كا قبضہ هوگیا اور جب انھوں نے اپنی طرف سے عراق كا حاكم معین كرنا چاھا تو اس وقت عراق كے لوگوں نے اس سلسلہ میں قیام كیا منجملہ یہ كہ ماہ ربیع الثانی 1337ھ میں حضرت آیت اللہ میرزا محمد تقی شیرازی سے ایك فتویٰ لیا جس كی تحریر اس طرح ھے:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 next