تاریخ آل سعود



وجوار كے شھروںدیھاتوں اور قبیلوں كے سرداروں كو خط لكھنے شروع كئے اور اپنے دیدار كے لئے بلایا، بعض لوگوں نے اس كی دعوت پر لبیك كھا، اور بھت سے لوگوں نے اس كی مخالفت كی۔

ابن معمر نے اپنی حسن تدبیر سے مخالفوں پر كامیابی حاصل كرلی اسی دوران تركی بن عبد اللہ اور اس كا بھائی درعیہ میں داخل هوئے پھلے تو تركی نے اس كی موافقت كی اور اس سے مل كر رھا اور اس كے بعد بعض واقعات كی بنا پر ایك دوسرے میں لڑائی جھگڑے هونے لگے، سر انجام تركی نے ابن معمر كو پھانسی دیدی۔

اس زمانہ میں (یعنی1235ھ میں) ایك بار پھر نجد كاماحول خراب هوگیا وھاں افرا تفری پھیل گئی، اور پھلے كی طرح مختلف قبیلوں میں جنگیں هونے لگیں، اسی زمانہ میں انگلینڈ كی دریائی فوج نے (جن كے پاس دریائی كشتیوں پر توپ وغیرہ بھی لگی هوئی تھی) ”راس الخیمہ“ پر حملہ كركے شھر پر قبضہ كرلیا، وھاں كے لوگ بھاگ نكلے اور انگلینڈ كی فوج نے شھر كو ویران كردیا۔

امیر تركی

1236ھ سے عثمانی بادشاہ نے امیر تركی پر حملہ كرنا شروع كردیا، اس كی وجہ جیسا كہ پھلےاشارہ كیا جاچكا ھے عثمانی بادشاہ كو یہ ڈر تھا كہ كھیں یہ لوگ ایك عربی بڑی حكومت نہ بنالیں (اور پھر اس پر حملہ نہ كردیں) اُدھر امیر تركی كی حكومت آہستہ آہستہ مضبوط هوتی گئی اور اس كا دائرہ وسیع هوتا گیا، جسے دیكھ كر عثمانی بادشاہ نے حسین بك كی سرداری میں ایك ترك لشكر نجد كی طرف روانہ كیا ،اس وقت امیر تركی نے اپنا دار السلطنت ”ریاض“ كو بنالیا تھا (جو آج بھی سعودی عرب كا پائے تخت ھے) ۔

امیر تركی اور حسین بك میں بھت خونین جنگیں هوئیں اور ان جنگوں میں تركی كمزور هونے لگا اور نزدیك تھا كہ شكست كھا جائے ایك جنگ میں تركی كے بیٹے فیصل كو گرفتار كركے مصر بھیج دیا گیا ،لیكن آخر كار تركی كو كامیابی ملی اور وہ حكومت پر قابض هوگیا اور اسی زمانہ میں اس كا بیٹا فیصل بھی مصر سے بھاگ نكلا اور اپنے باپ سے آكر ملحق هوگیا۔

تركی بادشاہ كا زمانہ ایسا تھاجس میں ھمیشہ مختلف قبیلوں میں لڑائی اور دیگرمشكلات سامنے آتی رھیں یھاں تك كہ اس كے بھانجے مشاری بن عبد الرحمن بن سعود نے اچانك1249ھ میں اس كو قتل كردیا ۔

قارئین كرام !یہ بھی معلوم رھے كہ مشاری وہ شخص تھا جس كو ابراھیم پاشا نے جلا وطن كركے مصر بھیج دیا تھا، اور وہ وھاں سے بھاگ كر اپنے ماموں كی پناہ میں چلا گیا تھا، اور جس وقت سے مشاری اپنے ماموں كی پناہ میں پهونچا تھا، تركی اس كا بھت احترام واكرام كرتا تھا اور اس كو شھر ”منفُوحہ“ كی ولایت دیدی تھی، لیكن چونكہ مشاری كو حكومت كرنے كا شوق تھا، لہٰذااس نے تركی كے ساتھ خیانت كی، لیكن وہ بھی بھت جلد فیصل كے ھاتھوں اسكے باپ كے انتقام میں قتل كردیاگیا۔

فیصل بن تركی

امیر تركی كے قتل هونے كے بعد اس كا غلام ”زوید“ ریاض سے ”اَحساء“ فیصل بن تركی كے پاس گیا اورتمام واقعہ بتلایا كہ تمھارے باپ كو قتل كردیا گیا ھے، واقعہ كو سن كر فیصل نے اپنے باپ كے انتقام میں ریاض پر حملہ كردیا ادھر شھر كا دفاع كرنے والوں میں سے ایك گروہ نے اس كی طرفداری كی، چنانچہ اس نے چند حملوں كے بعد شھر ریاض كو اپنے قبضہ میں لے لیا، اور مشاری اور اس كے چند ساتھیوں كو بھی قتل كر ڈالا۔

فیصل1250ھ كے شروع میں اپنے باپ كی جانشینی میں نجد كی حكومتكا بادشاہ بنا، قرب وجوار كے حكّام نے آكر اس كے ھاتھوں پر بیعت كی اور نجد كی حكومت ملنے پر اس كو مبارك بادپیش كی۔

آل رشید

امیرفیصل نے1251ھ میں صالح بن عبد المحسن كو جو ”جبل شَمَّر“ كا والی تھا معزول كركے اس كی جگہ عبد اللہ بن علی بن الرشید كو مقرر كیا، جس وقت عبد اللہ جبل شمر كے دار السلطنت،شھر ”حائل “ پهونچا تو اس كے اور آل علی میںجو سابق امیر صالح بن عبد المحسن كے ساتھی تھے شدید اختلاف پیداهوگیا، اور دونوں میں لڑائی هونے لگی، آخر كار ابن الرشید نے صالح كو اس كے محل میں گھیر لیا لیكن بعد میں اس كو امان دیدی، اور اس كو شھر سے باھر نكال دیا، اور فیصل كو خط لكھا كہ اختلاف اور جھگڑوں كی ابتداء آل علی كی طرف سے هوئی تھی، چنانچہ فیصل نے بھی اس كی تصدیق اور تائید كی۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 next