حكومت آل سعود



حكومت صفویہ كے آغاز سے ایران اور عثمانی حكومت كے درمیان هوئی جنگوں كی چھان بیناور تحقیق كے نتائج سے اس روش اور طریقہ كا پتہ چلتا ھے جو عثمانی علماء نے ایران كے مقابلہ میں اختیاركر ركھی تھی، كیونكہ وہ لوگ دشمنی میں ایرانیوں پر كسی بھی طرح كی تھمت لگانے سے پرھیز نھیں كرتے تھے، یھاں تك كہ ایران سے هونے والی جنگ كو جھاد كا درجہ دیتے تھے، اورایرانی شیعوں كے قتل كو مباح اور جائز جانتے تھے بلكہ غیر شیعہ ایرانیوں كے بارے میں بھی ان كا یھی نظریہ تھا اور ان كو اسیر كرنے، ان كی عورتوں اور بچوں كو فروخت كرنے كے بارے میں فتویٰ دیتے رھتے تھے۔

شاہ اسماعیل،حكومتِ صفوی كے بانی كے زمانہ میں جب عثمانیوں اور ایرانیوں كے درمیان جنگ وغیرہ هوتی رھتی تھی تو اس وقت عثمانی علماء اپنی مساجد میں دعا كے لئے جلسہ ركھتے تھے اور شاہ اسماعیل پر لعنت كرتے تھے۔

عثمانی موٴلف ”ابن طولون” شاہ اسماعیل اور سلطان سلیم عثمانی كے ھم عصر بھی ھیں، كھتے ھیں كہ923ھ میںھم 360 قاریوں كے ساتھ مسجد اموی دمشق (جو عثمانیوں كے تحت اثر تھی) میںچالیس دن تك سورہٴ انعام كی تلاوت كیاكرتے تھے، اور جب اللہ كے دو ناموں كے درمیان پهونچتے تھے تو صوفی اسماعیل (مراد شاہ اسماعیل ھے) پر لعنت كیا كرتے تھے۔

اس كے بعد قاھرہ كے آٹھ علاقوں مثلاً مقبرہ شافعی، لیث، سیدة نفیسہ، شیخ عمر بن فارض،ابو الحسن دینوری، شیخ ابو الخیر كلیباتی،مقیاس، جامع الازھر میں سلطان سلیم كی كامیابی كے لئے قرآن مجیدختم كیاكرتے تھے ۔

اور جب شاہ اسماعیل پر بدد عا كرنے اور سلطان سلیم كی كامیابی كے دعا كرنے سے كوئی نتیجہ نہ نكلا، تو اپنے مقاصد كے پیش نظر ایران كو دار الحرب هونے كا اعلان كردیا، اور اس كام سے عثمانی سپاھیوں كو صفویہ بادشاهوں سے لڑنے كا جذبہ اور لالچ بڑھ گیا، اسی زمانہ میں سلطان سلیم نے اپنے علماء سے ایك فتویٰ لیا جس میں یہ بات تحریر تھی كہ شرعی لحاظ سے شاہ اسماعیل كا قتل جائز ھے، كے علاوہ خود سلطان سلیم نے اپنے ایك خط كے میں جواس نے تبریز سے لكھا اور ایران پر حملے اور شاہ اسماعیل كو قتل كرنے كے بارے میں تھا ،لكھا كہ ھم نے مشهور فقھاء اور علماء كو دعوت دی اور ان سے شاہ اسماعیل سے جنگ كے بارے میں فتویٰ لیا، سبھی فقھاء اورعلماء نے فتویٰ دیاھے كہ جو شخص بھی اس كے سپاھیوں (یعنی شاہ اسماعیل كے سپاھیوں) كے مقابلہ میں كوشش كرے تو اس كی یہ سعی و كوشش مشكور ھے اور ان كے مقابلہ میں جھاد كرے تو اس كا یہ عمل مبرور ھے، كیونكہ علماء نے ان كے كفر، الحاد اور ارتداد كا فتویٰ صادر كیاھے۔

شاہ تھماسب صفوی اپنے تذكرہ میں اس بات كی طرف اس طرح اشارہ كرتے هوئے كھتے ھیں كہ ھم نے سیادت پناہ امیر شمس الدین كو ایلچی بنا كر استانبول بھیجا تاكہ رستم پاشا اور وھاں كے دیگر سرداروں سے گفتگو كرےں، لیكن تمام علمائے روم نے فتویٰ دیدیا كہ ایران كے تمام لوگوں

كی جان ومال حلال ھے چاھے وہ سپاہ هو، یا عوام الناس، مسلمان هو یا یهودی اور ارمنی، اور ان سے جنگ كرنا ”غزّ“ ھے۔

ھم نے كھا یہ فتویٰ تو بھت اچھا ھے !! ھم تو نماز وروزہ اور حج وزكات اور دیگر ضروریات دین كو قبول كرتے ھیں اور ان پر عمل كرتے ھیں، لیكن پھر بھی یہ لوگ ھمیں كافر كھتے ھیں، خدا یا توھی ان كے اور ھمارے درمیان فیصلہ كر۔

ہ سلسلہ نادر شاہ افشار كے زمانہ تك جاری رھا، اور اس سوال كی تحریر جو افغانیوںكے ایران پر حملے كے بعد شیخ عبد اللہ مفتی قسطنطنیہ سے1135ھ میں اسلامبولی تركی زبان میں لیا گیا تھا، اور اس كے جواب میں دیا گیا فتویٰ بھی موجود ھے۔

مذكورہ فتوے كا خلاصہ یہ ھے كہ ایران دار الحرب ھے اور وھاں رہنے والے افراد مرتد ھیں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 next