شفاعت وھابیوں کی نظر میں



وھابی حضرات کہتے ھیں : پیغمبران ا ور اولیا ء اللہ اس دنیا میںحق شفاعت نھیں رکھتے، بلکہ یہ حق صرف اور صرف انھیں آخرت میں حاصل ھے اور جو کوئی شخص بندگان خدا کو اپنے اور خدا کے درمیان واسطہ قرار دے،تا کہ اس کے حق میں شفاعت کریں وہ مشرک ھے، وھابی کہتے ھیں کہ درخواست شفاعت کے وقت اس طرح کھیں: ”اَلّٰلھُمَّ اجْعَلنَا مِمَّن تَنَالُہُ شَفَاعَةُ مُحَمَّدٍ“ یعنی خدایا ھمیں ان لوگوں میں قرار دے جن کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شفاعت نصیب ھوگی۔

وہ لوگ کہتے ھیں : ھمیں ھرگز یہ حق حاصل نھیں ھے کہ ھم کھیں: ”یَا مُحَمَّدُ اِشفَعْ لَنَا عِندَ اللّٰہِ“ اے محمد(ص) ! اللہ کے نزدیک ھمارے حق میں شفاعت کیجئے، وہ کہتے ھیں ، کہ یہ صحیح ھے کہ اللہ نے رسول اسلام(ص) کو حق شفاعت دیا ھے لیکن اللہ نے ھم کو اس کے مطالبہ سے منع فرمایا ھے بلکہ ھم شفاعت کو خدا سے طلب کریں جس نے رسول اسلام(ص) کو یہ حق دیا ھے۔

وھابیوں کو ھمارا جواب

ھم کہتے ھیں: ”توحید در عبادت “ ”شرک درعبادت“کے مقابلہ میں ھے کہ جوارکان توحید میں ایک اھم رکن ھے قرآن کریم میں اس کو بہت اھمیت دی گئی ھے لیکن حقیقت یہ ھے کہ کیا ھر طرح کی دعوت و طلب یا کسی چیز کی درخواست، عبادت اور پرستش ھے؟ یا یہ کہ عبادت و پرستش کا ایک خاص معنی ھے اور وہ دعوت و طلب، اورامور دنیا و آخرت میں کسی کے سامنے اظھار ذلت و خضوع کرنا اس اعتقاد کے ساتھ کہ وہ (متصرف بلامنازع) و بغیر چون چرا کے صاحب قدرت ھے یا دوسرے لفظوں میں یوںکھا جائے کہ اس کو خدا جانیں یا مرتبہٴ خدائی اس کے لئے قائل ھوں، چاھے بڑا خدا یا چھوٹا خدا ، حقیقی خدا یا مجازی خدا ، یا خدا اس موجود کو کہتے ھیں جو کائنات کا پروردگار اور اس کا مدبر ھے یا خلقت کے امور میں سے کسی شان کا مالک ھے بطور مثال مقام ”رزاقیت“ یا ”مغفرت“ یا ”شفاعت“کا مالک ھے اگر کوئی اس اعتقاد کے ساتھ کسی سے کوئی چیز طلب کرے تو مسلّم ھے کہ اس نے اس کی پرستش کی ھے، اور یہ بات واضح ھے کہ شافعین حقیقی سے درخواست شفاعت اس طرح نھیں ھوتی، بلکہ اس اعتقاد و ایمان کے ساتھ ھوتی ھے کہ یہ لوگ اولیاء اللہ ھیںاور اس کی بارگاہ میں مقرب ترین بندے ھیں ،بارگاہ خداوندی میں ان کی دعا مستجاب ھوتی ھے دوسرے لفظوں میں یوں کھا جائے کہ خداوند کریم نے ان کو خاص شرائط کے تحت شفاعت کی اجازت دے رکھی ھے۔

اس مطلب کی وضاحت کے لئے قرآن کریم کی آیات واضح طور پر گواھی دیتی ھیں کہ قیامت کے دن حق و حقیقت کی گواھی دینے والے بندگان خدا شفاعت کریں گے، قرآن فرماتا ھے:

”وَ لاَیَملِکُ الَّذِینَ یَدعُونَ مِن دُونِہِ الشَّفَاعَةَ اِلّٰا مَن شَھِدَ بِالحَقِّ وَ ھُم یَعلَمُونَ“[1]

”وہ لوگ جو غیر خدا کی پرستش کرتے ھیں انھیں شفاعت کا حق نھیں ھے ھاں مگر وہ لوگ جو کہ توحید خدا کی گواھی دیتے ھیں شفاعت کریں گے او راس کی حقیقت سے آگاہ ھیں “

لفظ ”الّا“حروف استثناء میں سے ھے وہ لوگ جو خدا کی وحدانیت کی گواھی دیتے ھیں ان کے شفاعت کرنے پر روشن و واضح دلیل ھے۔

اب یھاں پر ایک سوال یہ پیش آتا ھے :جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض اولیاء کو حق شفاعت اور اجازہٴ شفاعت دیا ھے جو کوئی شخص بھی ان حضرات سے درخواست شفاعت کرے ، اگر درخواست کرنے والا شفاعت کے شرائط رکھتا ھے اور ان افراد میں سے ھو کہ اس کے حق میں شفاعت قبول کی جائے تو اس کی درخواست شفاعت قبول کی جائے گی ورنہ اس کی شفاعت ردّ کر دی جائے گی،بانی وھابیت کا یہ جملہ کتنا مضحکہ خیز ھے، وہ کہتا ھے کہ : ”خدا نے اپنے اولیاء کو حق شفاعت دیا ھے لیکن ھم کو اس کی درخواست سے منع فرمایا ھے۔

اولاً: ھم سوال کرتے ھیںکہ خداوند کریم نے قرآن کی کس آیت میں درخواست شفاعت سے منع فرمایا ھے؟ اگر اللہ نے ھمیں اس لئے روکا ھے کہ شافعین سے شفاعت طلب کرناشرک ھے تو ھرگز یہ درخواست پرستش اور عبادت کے مقابلہ میں نھیں ھے اور اگر کسی دوسری جہت سے ھے تو انشاء اللہ اس کے بعد ھم اس پر تحقیق کریں گے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next