مکہ و مدینہ کے مناظرات



< اٴدع الی سبیل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة وجادلھم بالتی ھی احسن>[2]

”(اے رسول)تم (لوگوںکو)اپنے پرورگار کے راستہ کی طرف حکمت اَور اَ چھی نصیحت کے ذریعہ سے دعوت دو اوربحث و مباحثہ کرو بھی تو اس طرےقہ سے جو (لوگوںکے نزدیک)سب سے اچھا ہو، “

ا ب یہ تین اعتراضات اور انکے جوابات آپ کی پیش خدمت ہیں۔

”پہلا اعتراض“

< Û±>

< ستفترق امتی الی ثلاثةوسبعین فرقةََ کلھا فی النار الاّفرقة واحدةھی الناجیہ( النبیی الکریم)

”عنقریب میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گئی،سب کا ٹھکانہ جھنم ہے سوائے ایک فرقہ کے، وہی فرقہ ناجیہ(نجات پانے والا)ہے

”کون سا فرقہ ، فرقہ ناجیہ( نجات یافتہ)ہے“؟

مکہ مکرمہ اور مدنیہ منورہ میں حج و عمرہ کرنے والے شخص کا سامنا تنگ نظر، جاہل واحمق نیز جھوٹ اوربہتان باندھنے والے ایسے افراد سے ہوتا ہے جن کے نزدیک اسلام کی تعریف صرف لمبی داڑھی، اُونچا پا ئجامہ،اور منہ میں مسواک رکھنا ہے۔جبکہ اسلام کی دوسری اہم و چیدہ تعلیمات و احکام کووہ کوئی اہمیت نہیں دیتے۔اس کے باوجود وہ اپنے خیال خام میںیہ تصور کرتے ہیں کہ وہ بہت اچھا کام انجام دے رہے ہیں ۔

خدا وند کریم نے ایسے افراد کو قرآن میں ان الفاظ سے یاد کیا ہے:

<الذین ضلّ سعیھم فی الحیوة الدنیا و ھم یحسبون انھم یحسنون صنعاََ >[3]

”وہ ایسے لوگ (ہیں)جن کی دنیاوی زندگی کی سعی وکو شش سب اکارت ہو گئی اور وہ اس خام خیالی میں ہیں کہ وہ یقینا اچھے اچھے کام کر رہے ہیں“

لیکن اُن کا یہ عمل اور مومنین کرام پر افتراء و بہتان انہیں ذیل کی آیت کا مصداق بناتا ہے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 next