کیا خدا کا بھی کوئی خالق ھے ؟



۱۔ایک تو یہ کہ اسباب اور مسببات کا نظام اورواقعات کے درمیان علت و معلول کا رابطہ نا قابل انکار ھے ۔ اس لئے کہ تمام علوم طبعی اور حسّی و تجربی مشاھدات کی بنیاد یھی اسباب و مسببات کا نظام ھے ۔ اور سائنس دان اسی کی مدد سے ایجادات و اختراعات کرنے کے قابل ھوئے ھیں ۔

۲۔ دوسری یہ کہ انسان آزاد اور خود مختار پیدا ھوا ھے۔ یعنی اسے عقل ، فکر اور ارادہ دیا گیا ھے ۔ اپنے ارادہ و اختیار کے کاموں میں انسان کوئی ایسا پتھر نھیں ھے کہ جسے اوپر سے نیچے پھینکا جائے تو وہ زمین کی قوت جاذبہ کے تحت چار و نا چار زمین پر پھنچ کر رھے گا ۔ اور انسان کی حیثیت گھاس کی بھی نھیں ھے کہ جس کے سامنے صرف ایک محدود راستہ ھو اور جو نشو ونما کے حالات میسر آتے ھی زمین سے غذا حاصل کرنا شروع کر دیتی ھے اور سر سبز ھو جاتی ھے ۔ اوراسی طرح انسان کوئی جانور بھی نھیں ھے جو اپنی جبلت کی بنا پر کام انجام دیتا ھو ۔

انسان جب کسی چوراھے پر پھنچتا ھے تو وہ کسی ایک ھی راستے کے انتخاب کرنے پر مجبور نھیں ھوتا ۔ اس پر دوسرے راستے بند نھیں کر دیے جاتے ، وہ چار راستوں میں سے اپنی نظر و فکر سے کام لے کر کسی ایک راستے کو منتخب کرنے کے لئے آزاد ھوتا ھے ۔

آگ جو جلا دیتی Ú¾Û’ اور پانی جو غرق کر دیتا Ú¾Û’ اور گھاس جو اگتی Ú¾Û’ ØŒ ان Ú©Û’ اور انسانوں Ú©Û’ درمیان فرق یھی Ú¾Û’ کہ ان میں سے کسی Ú©Û’ بھی خواص اور فرائض اپنے منتخب کردہ نھیں ھیں جبکہ اس Ú©Û’ بر عکس انسان Ú©Û’ سامنے چند کام اور چند راھیں موجود ھوتی ھیں ان  میں سے کسی ایک کام یا راستہ Ú©Ùˆ وہ اپنی خواھش اور مرضی Ú©Û’ مطابق منتخب کر سکتا Ú¾Û’ Û”

جبر کا یہ دوسرا نظریہ بھی درست نھیں ھے ۔

۳۔ تیسرا نظریہ یہ ھے کہ ھم علت اور سبب کے اصول کو تسلیم کر لیں ۔ کیونکہ نظام عالم اور اس میں رو نما ھونے والے تمام واقعات ، حتی کہ انسانی افعال و اعمال سب علت و معلول کے درمیان رابطے کی بنیاد پر استوار ھیں اور انسان کے ارادہ و اختیار کی طاقت ان امورمیں موٴثر ھے جنھیں انسان انجام دیتا ھے ۔انسان کی قسمت اس نظام سے وابستہ ھوتی ھے جسے وہ خود وجود میں لاتا ھے ۔ ھر شخص کا اچھا یا برا مستقبل ، اس کی شخصیت اس کی روحانی صفات ، اس کی اخلاقی صلاحیتوں اور عملی قوت سے وابستگی رکھتا ھے اور بالآخر وہ اپنے لئے جس راستے کو بھی منتخب کرتا ھے وہ اسی راستے پر ڈال دیا جاتا ھے ۔

انسان ایسے کسی بھی کام کو ترک کرنے کی قدرت رکھتا ھے جس کا انجام دینا مصلحت اندیشی کے خلاف ھو جبکہ اس کام کے انجام دینے میں نہ کوئی رکاوٹ حائل ھوتی ھے اور نہ وہ کام اس کی طبیعت و خواھش کے خلاف ھوتا ھے ۔ اسی طرح وہ ایسے کسی بھی کام کو انجام دینے کی قدرت رکھتا ھے جو مصلحت اندیشی اور عقل کی رو سے درست ھو جبکہ وہ کام اس کی اپنی خواھش نفسانی کے خلاف ھوتا ھے اور جس کے انجام دینے میں کوئی خارجی رکاوٹ بھی در پیش نھیں ھوتی ۔ در اصل انسان کو ایک طرح کی آزادی حاصل ھے اور وہ کسی بھی کام کو اپنی عقل و ارادہ کی مدد سے انجام دے سکتا ھے یا اسے ترک کر سکتا ھے ۔ اور کوئی عامل اس کی خواھش اور رغبت کے خلاف اسے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر مجبور نھیں کرتا ۔

یہ نظریہ ( تیسرا نظریہ ) تمام بڑے بڑے پیغمبروں ، آسمانی کتابوں، مسلمان فلاسفہ اور دانشوران اسلام نے پیش کیا ھے اور مسلمانوں نے اسی عقیدے کو قبول کیا ھے ۔

اللہ تعالیٰ کی تقدیر یہ ھے کہ انسان اپنے کام، ارادہ و اختیار کے ساتھ انجام دے ، نہ یہ کہ تقدیر اسے اچھے یا برے کاموں میں سے کسی ایک طرح کے کام انجام دینے پر مجبور کرے ، باوجودیکہ علت و معلول کا نظام اس دنیا پر حکمراں ھے ۔ انسان کے کام کسی جبر کے تحت انجام نھیں پاتے ۔

یہ بات ظاھر ھے کہ قضا و قدر جس میں آزادی اور اختیار کو بھی جگہ دی گئی ھے ترقی اور عروج کی راہ میں حائل نھیں ھے اور انسان کے ھاتہ پاؤں نھیں باندہ دیتی ۔ وہ اپنی آزادی اور حریت سے فائدہ اٹھاتے ھوئے جس طرح کا بھی کام چاھے انجام دے سکتا ھے اور اپنی ترقی کے لئے کوشش کر سکتا ھے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 next