کیا خدا کا بھی کوئی خالق ھے ؟



اسلام کے دور اول میں مسلمان قضا و قدر پر راسخ اعتقاد رکھتے تھے ۔ انھوں نے تقدیر کے بارے میں یھی تعلیم حاصل کی تھی ۔

وہ قضا و قدر کو اپنے کاموں پر اختیار کے منافی نھیں سمجھتے تھے ۔تقدیر پر ان کے پختہ یقین نے کبھی انھیں جبر کی طرف نھیں ڈھکیلا اور انھیں بے حسی کے ساتھ خود کو تقدیر کے حوالے کر دینے والا نھیں بنایا ۔ انھوں نے اس دور میں جھاں تک ممکن ھو سکا بے مثال ترقی کرنے کا اعزاز حاصل کیا ۔

قضا و قدر کی حدود

دنیا Ú©Û’ کار Ùˆ بار پر اثر انداز ھونے والے عوامل جو مجموعی طور پر اسباب Ùˆ علل Ú©Û’ نظام Ú©Ùˆ وجود میں لاتے ھیں اور جو قضا Ùˆ قدر Ú©Û’ مظاھر میں شمار کئے جاتے ھیں ØŒ وہ صرف مادی امورتک منحصر اور محدود نھیں ھیں  معنوی امور کا بھی ایک سلسلہ موجود Ú¾Û’ جو انسان Ú©ÛŒ تقدیر Ú©Û’ بدلنے میں موثر ثابت ھوتا Ú¾Û’ Û” انسان کا چال چلن اور کردار بھی شمار میں آتا Ú¾Û’ اور اپنا ایک رد عمل ظاھر کرتا Ú¾Û’ Û”

 Ø¬ÙˆØ¯Ù†ÛŒØ§ Ú©ÛŒ کسوٹی پر اچھا اور برا یکساں نھیں ھوتا Û”

مثلاً:

کسی جاندار کو خواہ وہ حیوان ھو یا انسان اذیت دینا ، خصوصاً ان لوگوں کو جن کے کچھ حقوق عائد ھوتے ھیں ، جیسے ماں ، باپ اور استاد ، اسی دنیا میں اپنے برے نتائج سامنے لے آتا ھے ۔ اسی طرح ان لوگوں کا احترام انسان کی زندگی اور اس کی خوش نصیبی پر اثر انداز ھوتا ھے ۔

دعا بھی اس دنیا میں باطنی اسباب میں سے ایک ھے جو کسی بھی واقعہ کے انجام پر اثر انداز ھو سکتی ھے ۔

اچھے کام ، نیکیاں اور بحیثیت مجموعی گناہ ، سر کشی یا اطاعت ، توبہ یا کسی کی پردہ دری ، انصاف یا ظلم ، نیکوکاری یا بد کاری ، دعا یا لعنت ایسی ھی دوسری چیزیں ھیں جو انسان کی تقدیر ، اس کی عمر ، سلامتی اور روزی پر اچھے یا برے اثرات ڈالتی ھیں ۔

وہ لوگ جن کا نقطھٴ نظر دوسرا ھے بعض حقائق کی توجیہ میں ھم سے اختلاف کر سکتے ھیں ۔مثلا جس چیز کو ھم موت کا سبب قرار دیں ممکن ھے وہ اپنے علم کی بنا پر اسے موت کی علت نہ سمجھیں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 next