دين کي تعريف



بھرحال يہ وہ نظريہ ھے کہ جس کي رو سے طبيعي اسباب مثلاً سيلاب ، طوفان، زلزلہ، بيمار ي و موت اس بات کے موجب ھوگئے ھيں کہ انسان ان تمام خوف آور طبيعي اسباب کو مشترکہ طور پر خدا کا نام دے دے۔ فرائڈ کے مطابق خدا، انسان کي خلق کردہ مخلوق ھے نہ کہ اس کا خالق۔ فرائڈ کے بقول درحقيقت بشري ذھن ميں ديني عقائد پر اعتقاد و ايمان ان اسباب کے نقصانات اور ضرر سے محفوظ رھنے کي خواھش کي بنا پر پيداھوتا ھے۔ زمانہٴ اول کا بشر ان اسباب کے نقصانات اور اثرات کے خوف اور ڈر سے آھستہ آھستہ ايک ايسي صاحب قدرت ھستي کا قائل ھوگيا جو اس کے اعتبار سے ان تمام اسباب پر غالب اور مسلط تھي تاکہ اس طرح اس عظيم اور قادر ھستي کے حضور دعا، مناجات،قرباني، عبادت وغيرہ کرکے اس ھستي کي محبت و لطف کو ابھارے اورنتيجةً خود کو ان خطرات سے محفوظ کرلے۔

(۲) نظريہٴجہالت

ويل ڈورانٹ (WILL DURANT) اور برٹرانڈرسل(BERTRAND RUSSELL)  Ú©ÙŠ مانند بعض افراد اس نظريے Ú©Û’ قائل Ú¾ÙŠÚº کہ شروعاتي زمانے Ú©Û’ انسانوں Ù†Û’ جھالت اور لاعلمي Ú©ÙŠ بنا پر اپنے اندر خدا اور دين پراعتقاد پيدا کرليا تھا۔ يہ جاھل انسان جب چاند گرھن، سورج گرھن، آندھي اور بارش وغيرہ جيسے قدرتي واقعات وحادثات سے روبرو ھوتا تھا اور ان جيسے واقعات Ú©ÙŠ کوئي طبيعي اور ظاھري علت تلاش Ù†Ú¾ÙŠÚº پاتا تھا تو لا محالہ ايک فرضي علت تلاش کرليتا تھا اور اس علت کا نام ”خدا“ رکھ ديتا تھااور پھر مذکورہ تمام حادثات Ú©Ùˆ اس خدا سے منسوب کرديتا تھا۔خدا انسان پر اپنا عذاب نازل نہ کرے اور اسے زميني اور آسماني بلاؤں ميں گرفتار نہ کرے لھذا وہ خدا Ú©Û’ سامنے خضوع Ùˆ خشوع Ú©Û’ ساتھ سربسجود ھوجاتا تھا۔

مذکورہ دو نظر يوں پر تبصرہ

۱) يہ دونوں نظريے فرضي اور احتمالي ھيں اور ان کے تاريخي اثبات و ثبوت پر کوئي دليل موجود نھيں ھے۔

۲) اگر اس فرض کو تسليم کربھي ليا جائے کہ تمام يا بعض انسان خوف يا جھالت کي بناپر خدا کو باور کرليا کرتے تھے اور اس کي پرستش کرتے تھے تب بھي منطقي لحاظ سے يہ نيتحہ اخذ نھيں کيا جاسکتا کہ ”خدا موجود نھيں ھے اور تمام اديان باطل اور لغو ھيں“ اگر فرض بھي کرليا جائے کہ يہ تمام نظريات صحيح ھيں توصرف اتنا ھي ثابت ھوتا ھے کہ دين اور خدا پر بشر کا اعتقاد و يقين غلط روش اورطريقے پر مبني ھے اور يہ غير از نفي وجود خدا اور نفي حقانيت دين ھے۔

مثلاً، تاريخ بشريت ميں ايسے نہ جانے کتنے اختراعات و اکتشافات پائے جاتے ھيں جو شھرت طلبي، ثروت طلبي يا عزت و مقام طلبي کي بنياد پر وجود ميں آئے ھيںجو يقينا غير اخلاقي اور غير صحيح افکار و اقدام تھے ليکن اس کا مطلب يہ نھيں ھے کہ غير اخلاقي افکار کي بنياد پر وجود ميںآنے والے علمي اختراعات و اکتشافات بھي غلط يا باطل قرار پا جائيں گے ۔

مختصراً يوں بھي کہا جاسکتا ھے کہ ان نظريات ميں کسي فعل کو انجام دينے کا ”جذبہ“ اور اس فعل کا ”حصول‘ مخلوط ھوگئے ھيں يعني ايک شےٴ کے باطل ھونے کودوسري کا باطل ھونا فرض کرليا گيا ھے۔

۳) ايسے بھت سے حقائق ھيں جو ان دونوں مذکورہ نظريات کے برخلاف گفتگو کرتے نظر آتے ھيں مثلاً :

اولاً:

تاريخ گواہ ھے کہ دين کو انسان تک پھونچانے والے اور بشر کو خدا کي طرف دعوت دينے والے پيغمبر ھميشہ دلير اور شجاع ترين افرادھوا کرتے تھے اور سخت ترين حالات اور مشکلات سے بھي ھنس کھيل کر گزرجاتے تھے۔

ثانياً:

نہ جانے کتنے ايسے ڈر پوک اور بزدل افراد گزرے ھيں جو خدا پر ذرہ برابر اعتقاد نھيں رکھتے تھے اور آج بھي ايسے افراد ديکھے جا سکتے ھيں۔

ثالثاً:

اگر خدا پر يقين و اعتقاد کي بنياد طبيعي حادثات و واقعات ھيں تب تو موجودہ دور ميں خدا پر ايمان باطل ،ختم يا کم از کم قليل ھو جانا چاھئے کيونکہ آج انسان بھت سے طبيعي حادثات و واقعات پر غلبہ حاصل کرچکا ھے۔ اس کے بر خلاف آج ھم يہ مشاھدہ کرتے ھيں کہ آج بھي خدا پر ايمان اور اس کي پرستش دنيا بھر ميں وسيع پيمانے پر رائج اور موجود ھے۔

نظريہٴ جھالت Ú©ÙŠ ترديد کرنے والے موارد بھي وافر مقدار ميں موجود Ú¾ÙŠÚºÛ” اس سلسلہ ميں صرف اتنا تذکرہ کافي Ú¾Û’ کہ دنيا ميں ايسے بھت سے دانشمند پائے گئے Ú¾ÙŠÚº جودل Ú©ÙŠ گھرائيوں سے خدا پر ايمان Ùˆ اعتقاد رکھتے تھے مثلاً نيوٹن (ISAAQ NEOTON) ØŒ گيليليو (GALILEO)  آئن انسٹائن اور نہ جانے ايسے ھزاروں کتنے افراد اور آج بھي ايسے خدا پر ايمان رکھنے والے افراد کا مشاھدہ کيا جا سکتا Ú¾Û’ Û”

۴)ھمارے اعتبار سے دين کي طرف انسان کي رغبت کي وجوھا ت دو ھيں:

پھلي يہ کہ تاريخ کے شروعاتي دور ھي سے بشر يہ سمجھتا آيا ھے کہ ھر شئے ايک علت چاھتي ھے اور ايسي شےٴ جو ممکن الوجود ھو،اس کے لئے محال ھے خود بخود پيدا ھوسکے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next