طلاق در اسلام



تین مھینے اور کچہ دن کی مدت ( جس میں عورت کو اپنے شوھر کے گھر رھنا ھی چاھئے ) مرد کو طلاق دینے پر نادم و پشیمان بھی بنا سکتی ھے اور بھت ممکن ھے کہ اس مدت میں محبت و الفت پھر پیدا ھو جائے اور دوبارہ مرد ازدواجی زندگی پر آمادہ ھو جائے ۔ اسی بات کی طرف آیت قرآنی کاآخری حصہ اشارہ کرتا ھے یعنی اس حکم کا فلسفہ کہ عورت عدّہ کے زمانے میں کیوں شوھر کے گھر پر رھے، بیان کر رھی ھے اور اس میں خوبی یہ ھے کہ عدہ رجعیہ میں رجوع کرنے کے لئے کسی خصوصی اھتمام کی ضرورت نھیں ھے بلکہ مرد کے بقاء نکاح کےلئے معمولی خواھش بھی اس بات کے لئے کافی ھے ۔ رجوع میں اتنی سھولت دینااس بات کی دلیل ھے کہ اسلام خانوادے کے اتحادکو ھر قیمت پر باقی رکھنا چاھتا ھے اور طلاق و جدائی و انتشار کو سخت نا پسند کرتا ھے ۔

 Ø§Ø³ÛŒ طرح خلع ( یعنی عورت ØŒ مرد Ú©Ùˆ نا پسند کرتی Ú¾Ùˆ اور مھر یا دوسرا مال دے کر شوھر سے جدائی حاصل کرے ) میں بھی یہ بات ملحوظ Ú¾Û’ کہ اگر عورت خلع لینے پر نادم Ùˆ پشیمان Ú¾Ùˆ تو اپنے دئے ھوئے مال Ú©Ùˆ واپس Ù„Û’ کر پھر شوھر Ú©Û’ حق Ú©Ùˆ دوبارہ محفوظ کر دیتی Ú¾Û’ کہ وہ چاھے تو رجوع کر Ù„Û’ اور زندگی پھر پرانے ڈھرے پر Ú†Ù„ Ù†Ú©Ù„Û’ Û”

اسلام نے نکاح کے مقدس رابطے کو بر قرار رکھنے کے لئے ایسے قوانین بنا کر نا قابل تصور حد تک رعایت دی ھے اور خانوادے کے اتحاد کو دوام بخشا ھے کیونکہ بسا اوقات ایسا ھوتا ھے کہ لوگ مختلف اسباب و عوامل کی بناء پر” مَالَہ وَ مَا عَلَیہ“ پر غور کرنے سے پھلے عجلت میں کوئی فیصلہ کر دیتے ھیں اور پھر بعد میں پچھتا تے ھیں اسی لئے طلاق کے لئے اسلام نے اتنے قیود و شرائط معین کر دئے کہ انسان جلدی سے فیصلہ نہ کر سکے اور اس کی وجہ سے حتمی طور پر طلاق کی تعداد میں کمی ھو گی ۔

ان تمام باتوں کے پیش نظر غیر متعصب و منصف مزاج آدمی یہ ماننے پر مجبور ھے کہ دنیا کے ھر نظام سے زیادہ اسلام نے حفظ نکاح میں کوشش کی ھے اور مدعیان اسلام کے لئے کوئی گنجائش نھیں چھوڑی ۔

 Ø¬Ú¾Ø§Úº عورتوں Ú©Û’ حقوق Ú©Ùˆ خطرہ لاحق Ú¾Ùˆ جائے وھاں اسلام Ù†Û’ عورت Ú©ÛŒ قانونی حمایت Ú©ÛŒ Ú¾Û’ اور ایسے مواقع Ú©Û’ لئے عورت Ú©Ùˆ راستے بتائے گئے ھیں تاکہ وہ ایسے حالات میں اپنے Ú©Ùˆ اس ماحول سے الگ کر سکے Û” مثلا :

۱۔ نکاح کے وقت عورت مرد سے شرط کر سکتی ھے کہ اگر مرد نے اس کے ساتہ ناروا سلوک کیا یا نان و نفقہ میں کوتاھی برتی یا مسافرت کی یا دوسری شادی کی تو وہ خود وکیل یا وکیل در وکیل ھو کر مرد سے طلاق حاصل کر سکتی ھے ۔

۲۔ امو رجنسی کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لے تاکہ شوھر خود ھی اس کو طلاق دے دے ۔

 Û³Û” اگر شوھر نان Ùˆ نفقہ نہ دے سکتا Ú¾Ùˆ یا جنسی امور Ú©ÛŒ انجام دھی نہ کرے یا اس Ú©Û’ دیگر واجب حقوق Ú©Ùˆ پورا نہ کرے تو ایسی صورت میں عورت حاکم شرع سے رجوع کر سکتی Ú¾Û’ Û” اب اگر حاکم شرع Ú©Û’ سامنے عورت کا دعویٰ صحیح ثابت Ú¾Ùˆ جاتا Ú¾Û’ تو وہ شوھر Ú©Ùˆ عدالت ØŒ اتحاد ØŒ ادائیگی حقوق پر مجبور کرے گا اور اگر شوھر پھر بھی نھیں مانتا تو حاکم شرع اس Ú©Ùˆ طلاق پر مجبور کرے گا۔ اگر طلاق بھی نہ دے تو حاکم شرع خود طلاق جاری کر دے گا۔

 Û´Û” اگر شوھر عورت پر زنا کا الزام لگائے اور بچے کا انکار کر دے کہ یہ میرا نھیں Ú¾Û’ تو عورت Ú©Ùˆ حق Ú¾Û’ کہ عدالت شرعیہ Ú©ÛŒ طرف رجوع کرے اگر شوھر اپنے دعوے Ú©Ùˆ ثابت نہ کر سکے تو مخصوص شرائط Ú©Û’ ساتہ قاضی Ú©Û’ Ø­Ú©Ù… سے دونوں میں جدائی Ú¾Ùˆ جائے Ú¯ÛŒ Û”

 ÛµÛ” اگر میا Úº بیوی دونوں ایک دوسرے سے متنفر Ú¾ÙˆÚº تو یھاں بھی بھت آسانی سے جدائی ممکن Ú¾Û’ اس طرح کہ عورت اپنے مھر Ú©Ùˆ ختم کرے اور مرد زمانھٴ عدہ Ú©Û’ مصارف سے معاف کیاجائے تو ایسی صورت میں بھی عورت مھر کا مطالبہ کئے بغیر اور شوھر زمانہٴ عدہ کا خرچ دئے بغیر آپس میں طلاق حاصل کر سکتے ھیں Û”



back 1 2 3 4 5 6 7 next