فلسفہٴ روزہ



 Ø±Ù…ضان Ú©Û’ باب میں  ایک بلند ھمّت انسان وہ Ú¾Û’ جو روزے Ú©Ùˆ اسکے آداب اور اسرار Ú©Û’ ساتھ رکھے لیکن یہ آخری حد نھیں  Ú¾Û’ ،مقام انسان اتنا بلند Ú¾Û’ کہ اس Ú©ÛŒ کوئی حد معیّن نھیں  Ú©ÛŒ گئی Ú¾Û’ØŒ Ùˆ ہ اس سے بھی زیادہ اپنی ھمّت کوبلندکر سکتا Ú¾Û’ اور وہ اس طرح کہ روزے Ú©Ùˆ اسکے پورے آداب Ùˆ اسرار Ú©Û’ ساتھ کامل کرے اور جب افطارکاوقت آئے تو اپنی افطارکی روٹیاں  فقیر Ú©Ùˆ دے کر پانی پر اکتفاکر Ù„Û’ اور یہ عمل تین دنوں  تک جاری رھے ----”و یطعمون الطعام علیٰ حبہ مسکینا Ùˆ یتیما Ùˆ اسیرا“ (Û³)یھاں  پر قابل توجہ نکتہ یہ Ú¾Û’ کہ اس عمل میں  ایک غیر معصوم کنیز(فضّھ) بھی شریک Ú¾Û’ جو اس بات Ú©ÛŒ علامت Ú¾Û’ کہ ایک غیر معصوم انسان بھی اپنے آپ Ú©Ùˆ ایسے بلند مقام تک پھونچا سکتا Ú¾Û’ جھاں  وہ ایک ایسا عمل انجام دے جو معصوم Ú©Û’ لئے بھی فضیلت شمار کیا جاتا ھو۔یہ کسی بھی انسان Ú©Û’ لئے ایک بھت بڑا مقام Ú¾Û’ اور اس اطعام Ú©ÛŒ لذّت ان روٹیوں  Ú©Û’ کھانے سے کھیں  زیادہ Ú¾Û’ Û”

روزہ کا ظاھر وباطن

انسان جسم اور روح سے مرکّب ھے،جسم روح Ú©ÛŒ فعّالیت کا وسیلہ اور روح جسم Ú©ÛŒ حیات ھے۔اگر جسم سے روح Ù†Ú©Ù„ جائے تو جسم مردہ اور بے حرکت Ú¾Ùˆ جاتا Ú¾Û’ ØŒ اور دوسری طرف روح Ú©ÛŒ فعّالیت کا سلسلہ متوقّف Ú¾Ùˆ جاتا Ú¾Û’ ۔انسان Ú©Û’ اعمال وعبادات بھی بالکل انسان Ú©Û’ مانند ھیں ،ان میں  بھی ایک جنبہٴ ظاھری وجسمانی Ú¾Û’ یعنی پیکر عمل، اور ایک جنبہٴ باطنی Ùˆ روحانی Ú¾Û’ یعنی فلسفہ واسرار عمل۔جسطرح انسان Ú©ÛŒ زندگی اسکی روح میں  Ú¾Û’ اسی طرح عمل Ú©ÛŒ حیات بھی اسکے اسرار اور فلسفہ میں  Ú¾Û’ اور جس طرح روح Ú©Û’ بغیر انسان مردہ Ú¾Û’ اسی طرح اسرار Ùˆ فلسفہ Ú©Û’ بغیر اعمال مردہ ھیں ،لیکن اکثر انسانوں  Ú©ÛŒ مشکل یہ Ú¾Û’ کہ وہ جسم پرست اور ظاھر بین ھیں ،وہ جسم Ú©ÛŒ زینت اور خدمت میں  خود Ú©Ùˆ اتنا مشغول کر لیتے ھیں  کہ انھیں  روح Ú©ÛŒ طرف توجہ دینے Ú©ÛŒ فرصت Ú¾ÛŒ نھیں ملتی Û” یہ پوری انسانیت Ú©ÛŒ مشکل Ú¾Û’ ،آج کا انسان روح اور روح Ú©Û’ تقاضوں  سے بے خبر صرف جسم Ú©ÛŒ خدمت میں  لگا ھوا Ú¾Û’ اور بغیر روح Ú©Û’ جسم کتنا Ú¾ÛŒ قوی کیوں  نہ Ú¾Ùˆ جائے مردہ Ú¾Û’Û” آج Ú©Û’ انسانی معاشروں  Ù†Û’ بڑی مضحکہ خیز بلکہ بھیانک Ø´Ú©Ù„ اختیار کر Ù„ÛŒ Ú¾Û’ ۔شھر،سڑکیں ،گلیاں ،مکان سب سجے ھوئے ھیں  لیکن ان میں  حرکت کرنے والے انسان مردہ ھیں ۔جنکی حرکت ایک انسانی حرکت نھیں بلکہ ایک مشین یا روبوٹ Ú©ÛŒ حرکت Ú©Û’ مانند Ú¾Û’ ،جن Ú©ÛŒ ساری بھاگ دوڑاس لیے Ú¾Û’ کہ ان Ú©Û’ جسم Ú©ÛŒ تمام ضرورتیں  اور خواھشیں  پوری Ú¾Ùˆ جائیں  لیکن اسکی کوئی فکر نھیں  کہ روح کا کوئی تقاضا پورا ھویانہ ھو۔تعجب اس بات پر Ú¾Û’ کہ پھر یھی انسان شکایت کرتا Ú¾Û’ کہ معاشرے میں  فساد اور جرائم بڑھتے جا رھے ھیں  جبکہ اسے معلوم Ú¾Û’ کہ مردہ جسم Ú©Ùˆ اگر دفن نہ کر دیا جائے تو اس میں  تعفّن اور فساد کا پیدا ھونا لازمی Ú¾Û’Û”

ایک سنجیدہ مسئلہ

 Ø§Ù†Ø³Ø§Ù†ÙˆÚº  Ú¾ÛŒ Ú©ÛŒ طرح انسانی اعمال اور عبادتیں بھی اگر بغیر روح Ú©Û’ انجام دی جائیں  تو نہ صرف یہ کہ ان کا انسانی زندگی پر کوئی مثبت اثر نھیں  پڑتا بلکہ در حقیقت وہ مزید فساد کا باعث بنتی ھیں ۔تصنّع،ریا کاری ،فریب، تکبّر،اور خود نمائی جیسے اخلاقی مفاسد بعض اوقات انھیں  بے روح عبادتوں  Ú©Û’ نتیجے میں  پیدا ھوتے ھیں  جن میں  اکثر عباد ت گزار مبتلا ھوجاتے ھیں ۔عبادتوں  Ú©Û’ ان نتائج Ú©Ùˆ دیکہ کر ایک بڑا طبقہ ان سے دور Ú¾Ùˆ جاتا Ú¾Û’ اور دور ھونا بھی چا ھیے کیونکہ مردہ چیزوں  سے ھر شخص دوری اختیار کرتا Ú¾Û’Û” پھر یہ شکایت Ú©ÛŒ جاتی Ú¾Û’ کہ جوان نسل مسجد میں  نھیں  آتی،جوان روزہ نھیں  رکھتے اور یہ درست بھی Ú¾Û’ لیکن وہ مسجد میں  اس لئے نھیں آتے کیوں کہ انھیں  اسرار نماز نھیں  معلوم ،وہ روزہ اسلئے نھیں  رکھتے کیوں کہ انھیں  فلسفھٴ روزہ نھیں  بتایا گیا Ú¾Û’ Û”

راہ حل

آج جب کہ پوری بشریت شدّت سے اپنے اندر معنویت اور روحانیت کا خلا محسوس کر رھی Ú¾Û’ او ر دوسری طرف ان بے روح عبادتوں  Ú©Ùˆ قبول بھی نھیں  کیا جا سکتا تو ضرورت اس بات Ú©ÛŒ Ú¾Û’ کہ ان تمام عبادتوں  Ú©Û’ اسرار Ùˆ فلسفے بیان کیے جائیں  ØŒ ،لوگوں  Ú©Ùˆ جتنے احکام بتائے جائیں  اس سے کھیں  زیادہ ان Ú©Û’ اسرار بتائے جائےں  ،احکام کا فلسفہ بیان کیا جائے۔

ممکن Ú¾Û’ کوئی یہ راہ حل پیش کرے کہ جو چیز بے روح Ú¾Ùˆ جائے اسے ترک کردیا جائے لھٰذا یہ بے روح نمازیں ØŒ بے روح روزے ،بے روح حج،بے روح عبادتےں ØŒ بے روح عزاداری،حتّیٰ بے روح دین ان سب Ú©Ùˆ ترک کر دیا جائے ۔اگر اس ترک کرنے سے مراد یہ Ú¾Ùˆ کہ ان بے روح عبادتوں اور اعمال Ú©Ùˆ ترک کر Ú©Û’ زندہ عبادتےں ØŒ زندہ اعمال اور زندہ دین Ú©Ùˆ اپنایا جائے تو یہ ÙˆÚ¾ÛŒ راہ حل Ú¾Û’ جو Ù¾Ú¾Ù„Û’ بیان کیا گیاھے یعنی ان میں  روح پیدا Ú©ÛŒ جائے ان Ú©Û’ اسرار وفلسفے بیان کئے جائیں ØŒ لیکن اگر اس سے مراد یہ Ú¾Ùˆ کہ سرے سے دین Ú©Ùˆ ترک کر دیا جائے،سرے سے عبادتےں Ú¾ÛŒ نہ انجام دی جائےں ،سرے سے عزاداری Ú¾ÛŒ نہ Ú©ÛŒ جائے تو یہ راہ حل ایسا Ú¾Û’ جیسے کوئی Ú©Ú¾Û’ کہ آج اکثر انسان اور انسانی معاشرے روحانیت اور معنویت سے خالی ھیں  لھٰذاان سب کا خاتمہ کر دیا جائے۔یہ کوئی راہ حل نھیں  Ú¾Û’ کہ ابرو سنوارنے میں آنکھیں  Ù¾Ú¾ÙˆÚ‘ دی جائیں Û”

اھل مغرب کی روش اور اس کا انجام

اھل مغرب Ù†Û’ بجائے اصلاح Ú©Û’ ترک Ú©ÛŒ روش Ú©Ùˆ اختیار کیا یعنی انھیں منحرف شدہ عیسائی مذھب ،ساکت، جامد ،بے ھدف اور بے روح نظر آیاتو بجائے اسکے کہ وہ دین Ú©Ùˆ زندہ ،متحرک اور باھدف بناتے انھوں  Ù†Û’ اسے Ú¾ÛŒ ترک کر دیا۔ انھیں  مسیحی عبادتےں  Ú©Ú¾ÙˆÚ©Ú¾Ù„ÛŒ اور بے جان نظر آئیں تو بجائے اسکے کہ وہ عبادتوں کوغنی کرتے انھیں  سرے سے ترک کر دیا ،انھیں کلیسا Ú©ÛŒ روحانیت میں خرافات نظر آئے توبجائے اسکے کہ خرافات Ú©Ùˆ ھٹا کر اسکی جگہ عمیق معنویت Ú©Ùˆ جاگزیں کرتے انھو Úº Ù†Û’ سرے سے کلیسا اور روحانیت Ú©Ùˆ ترک کر دیا جسکے نتیجے میں  اب وہ ایک متمدّن حیوان بن کر مادّیت Ú©Û’ پیچھے تیزی سے بھاگ رھے ھیں ۔انھوں  Ù†Û’ Ø´Ú©Ù… پرستی ،جسم پرستی اور شھوت رانی کا مقابلھ(Competition)شروع کر رکھا Ú¾Û’ اور بشریت Ú©Ùˆ ایک ایسے موڑ پر پھونچا دیا Ú¾Û’ کہ اس Ú©ÛŒ ھلاکت Ú©Û’ آثار بھت صاف نظر آنے Ù„Ú¯Û’ ھیں اگرچہ علوم وفنون میں آج Ú©Û’ انسان Ú©ÛŒ ترقی بھی بھت صاف نظر آتی Ú¾Û’ لیکن دین Ùˆ معنویت سے خالی اس ترقی Ú©Û’ تحفے بھت جانسوز اور دردناک ھیں Û”Ù¾Ú¾Ù„ÛŒ اور دوسری جنگ عظیم سے لیکر فلسطین ،افغانستان،اور عراق میں  ھونے والی بربریت اور درندگی Ú©Û’ تمام مناظراسی ترقی Ú©Û’ ارمغان ھیں Û”

اھل مغرب Ù†Û’ جس راہ حل کا انتخاب کیا آج دنیائے انسانیت Ú©Ùˆ اسکی بھت بڑی قیمت ادا کرنی پڑرھی Ú¾Û’ اور ابھی مزید تلخ سے تلخ ترحالات سے دو چار ھونا Ù¾Ú‘Û’ گا،جسکی وجہ یہ Ú¾Û’ کہ انھوں Ù†Û’ قرون وسطیٰ (middle ages)Ú©ÛŒ بے جان مسیحیت سے تنگ آ کرجو طریقہ اپنایا وہ سرے سے راہ حل Ú¾ÛŒ نھیں  تھا بلکہ وہ ایک مشکل سے فرار تھا جس Ù†Û’ اور بڑی مشکل میں  گرفتار کر دیا۔

دین اور معنویت Ú©Û’ بغیر انسان اندر سے بالکل کھوکھلا Ú¾Ùˆ گیا Ú¾Û’ اگرچہ اسکا ظاھر بھت حسین Ú¾Û’ اور اب اس مشکل کا حل یہ Ú¾Û’ کہ انسان پھر دین Ú©ÛŒ طرف پلٹے لیکن ایک ایسے دین Ú©ÛŒ طرف جو زندہ Ú¾Ùˆ ،جسکے پاس انسانی زندگی Ú©Û’ تمام شعبوں  Ú©Û’ لئے لائحہ عمل موجود Ú¾ÙˆÛ” آج انسان Ú©ÛŒ بھلائی اسمیں  Ú¾Û’ کہ وہ پھر خدا Ú©ÛŒ طرف پلٹے لیکن ایسے خدا Ú©ÛŒ طرف جس Ù†Û’ اپنے تمام امور راھبوں اور راھب صفت ملّاؤں Ú©Û’ سپرد نھیں کر دیئے ھیں  بلکہ تدبیر عالم اسکے ھاتھوں  میں ھے،آج انسانیت کا سکون Ùˆ اطمینان اسمیں  Ú¾Û’ کہ وہ پھر سے عبادت خدا اور ذکر خداکی طرف پلٹے”اَلا بِذِکْرِاللّٰہ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ“ (Û´)لیکن ایسی عبادت اور ایسا ذکر جس میں  اسرار ،فلسفہ اور حکمت موجود Ú¾Ùˆ اور انسان اس Ú©Û’ اسرار Ùˆ فلسفہ سے واقف بھی Ú¾Ùˆ ورنہ نادانی Ú©ÛŒ دینداری ØŒ اور اسرار Ùˆ فلسفہ سے خالی اعمال وعباتیں بعض اوقات بے دینی اور بے عملی سے زیادہ مضر ثابت ھوتی ھیں Û”

قرآن میں  Ø±ÙˆØ²Û کا Ø­Ú©Ù…

 Ù‚رآن Ù†Û’ جس آیھٴ کریمہ میں  روزے کا Ø­Ú©Ù… بیان فرمایا Ú¾Û’ اسی آیت میں  دو مطلب Ú©ÛŒ اور بھی وضاحت Ú©ÛŒ Ú¾Û’ ۔اوّل یہ کہ روزہ ایک ایسی عبادت Ú¾Û’ جسے امّت مسلمہ سے قبل دیگر امّتوں Ú©Û’ لیے بھی فرض قرار دیا گیا تھا”کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ“(Ûµ)یعنی روزہ Ú©Û’ ذریعے انسان Ú©Ùˆ جوھدف حاصل کرنا Ú¾Û’ وہ امّت مسلمہ سے مخصوص نھیں  Ú¾Û’ بلکہ دیگر امتوں  Ú©Û’ لیے بھی تھا Û”

یھاں  طبیعی طور پر انسان Ú©Û’ Ø°Ú¾Ù† میں  یہ سوال اٹھتا Ú¾Û’ کہ وہ ھدف کیا Ú¾Û’ ؟اور Ø­Ú©Ù… روزہ کا فلسفہ کیا Ú¾Û’ ؟اسمیں  کون سے اسرار اور رموز پوشیدہ ھیں  جنکی بنا پر اسے نہ صرف امّت مسلمہ بلکہ اس سے قبل دیگر امتوں  پر بھی واجب قرار دیا گیا ؟ان سوالوں  Ú©Û’ جواب Ú©Û’ لیے قرآن Ù†Û’ اس آیت Ú©Û’ آخری حصّہ میں  روزہ کا فلسفہ بیان کیا Ú¾Û’ ۔” لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون “ تاکہ شاید تم صاحب تقویٰ بن جاوٴ۔ پس ایک Ú¾ÛŒ آیت میں  قرآن Ù†Û’ تین چیزیں  بیان Ú©ÛŒ ھیں :



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 next