قیامت



آسمانی اور الھامی کتابوں میں قرآن مجید ھی واحد کتاب ھے جس نے قیامت کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا ھے۔ توریت میں اس دن کے بارے میں کوئی ذکر نھیں ھے اور انجیل نے بھی بھت ھی مختصر سا بیان قیامت کے متعلق دیا ھے۔ قرآن مجید نے سینکڑوں بار روز قیامت کے متعلق مختلف طریقوں اور ناموں سے اس دن کا ذکر کیا ھے اور یہ بھی بتایا ھے کہ اس دن دنیا اور اھل دنیا کو کیا پیش آئے گا۔ بھر حال قیامت کے بارے میں قرآن مجید میں کبھی اجمالی طور پر اور کبھی تفصیل کے ساتھ بیان ھوا ھے۔

بارھا بیان فرمایا گیا ھے کہ قیامت کے دن پر ایمان بھی خدا پر ایمان لانے کے مترادف ھے اور اسلام کے تین اصولوں میں سے ایک ھے۔ لھذا جو شخص قیامت کا منکر ھوگا وہ اسلام سے خارج ھوجائے گا اور اس کا انجام ھلاکت اور تباھی کے علاوہ کچھ نھیں ھوگا۔

حقیقت بھی یھی ھے کیونکہ اگر خدا کی طرف سے حساب و کتاب اور صلہ و انعام نہ ھو تو دین کی تبلیغ اور دعوت جو خدا وند تعالیٰ کے احکام کا مجموعہ ھے اور امر و نھی پر مشتمل ھے، کا کوئی اثر نھیں ھوگا۔ اس طرح نبوت و تبلیغ کا بھی کوئی اثر نہ ھوگا بلکہ اس کا نہ ھونا، ھونے سے بھتر سمجھا جائے گاکیونکہ دین کو قبول کرکے شرعی قوانین و اصول کی پیروی، آزادی کو ھاتھ سے دینے کے برابر ھوگی اور اگر دین کی پیروی اور اطاعت کا کوئی اثر نہ ھو تو لوگ ھر گز اس کو قبول نھیں کرسکتے اور اپنی فطری آزادی کو ھاتھ سے نھیں جانے دے سکتے۔

یھاں واضح ھو جاتا ھے کہ روز قیامت پر ایمان بھت ھی اھم عنصر ھے کہ انسان کو تقویٰ اور پرھیز گاری کی طرف مائل کرکے ناپسندیدہ اخلاق اور گناھان کبیرہ سے روکتا ھے جیسا کہ قیامت کو بھول جانا یا اس پر ایمان نہ رکھنا ھر گناہ اور خطا کی اصل بنیاد ھے۔ اللہ تعالیٰ اپنی پاک کتاب قرآن مجیدمیں فرماتا ھے:

اِنَّ الّذِینَ یَضِلُّونَ عَن سَبِیلِ اللهِ لَھمْ عَذابٌ شَدِیدٌ بِمَا نَسُوا یَوْمَ الْحِسَابَ  (Û³Û¶)

”جو لوگ خدا کے راستے سے ھٹ کر گمراہ ھوجاتے ھیں ان کے لئے سخت عذاب ھے کیونکہ انھوں نے قیامت کے دن کو بھلا دیا ھے“

جیسا کہ واضح ھے، روز قیامت کو بھول جانا ھر گمراھی اور گناہ کی اصل بنیاد ھے۔

انسان اور کائنات کی پیدائش میں غور کرنےنیز آسمانی شریعتوں (احکام و اصول) کی غرض و غایت سے ایک ایسے دن (قیامت) کے موجود ھونے پر روشنی پڑتی ھے۔

جب ھم ان حوادث و واقعات پر غور و خوض کرتے ھیں جو کائنات میں رونما ھوتے ھیں تو معلوم ھوتا ھے کہ کوئی بھی کام (کہ ھر کام ایک قسم کی ضرورت اور حرکت پر مشتمل ھے) بغیر کسی غرض و غایت کے انجام نھیں پاتا اور ھرگز اپنے آپ اور مقصود و مطلوب کے بغیر کوئی حقیقت نھیں رکھتا بلکہ غرض و غایت پر مشتمل ھوتاھے اور اسی اصلی مقصد کا مقدمہ ھے اور اسی مقصود کی خاطر انجام پاتا ھے حتیٰ کہ وہ کام اور امور جو ظاھری طور پر بے مقصد ھوتے ھیں مثلاً قدرتی کام یا بچوں کے کھیل وغیرہ ۔ اگر ان میں بھی غور کریں تو ان کاموں کی مناسب غرض و غایت کا مشاھدہ کریں گے جیساکہ قدرتی امور جو عام طور پر حرکت پر مشتمل ھیں، وہ مقصد جس کی طرف حرکت کرتے ھیں وھی ان کی غرض و غایت ھے اور بچوں کے کھیلوں میں بھی کھیلوں کے مناسب ایک خیالی اور وھمی مقصد موجودھوتا ھے جو اس کھیل کی اصلی بنیاد ھے۔

پس ناچار دنیا اور انسان کی خلقت اور پیدائش کا ایک مستقل مقصد ھے۔ البتہ اس کا فائدہ یا منافع خدا کو نھیں پھنچتا کیونکہ خدا وند تعالیٰ ھر چیزسے بے نیاز ھے اور ھر فائدہ صرف مخلوق کو ھی پھنچتا ھے۔ پس یوں کھنا چاھے کہ یہ دنیا اور انسان ایک مستقل چیز اور مکمل وجود کی طرف چل رھے ھیں جس میں زوال اور فنا موجودنھیں ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next