قرآن کا سیاسی نظام



۳۔ رائے عامہ : نص صریح کی عدم موجودگی میں عوام ، اسلام میں مذکورہ صفات و خصوصیات کے حامل شخص کو حکمرانی کے لئے انتخاب کر کے اسے اسلامی معاشرے میں سیاست کرنے کی ذمہ داری سونپ سکتے ھیں ۔

لیکن انتخاب Ú¾Ùˆ یا شوریٰ ان دونوں Ú©Û’ نتیجہ میں ایک بنیادی نکتہ جو لوگوں Ú©ÛŒ فکر Ùˆ توجہ کا مرکز اور جس Ú©Û’ ذریعے اسلامی نظام دوسرے نظاموں سے ممتاز قرار پاتا Ú¾Û’ ØŒ اسلامی سیاست Ú©Û’ معاملوں پر ولی امر Ú©ÛŒ نظارت کا مسئلہ Ú¾Û’ ØŒ جسے ھر حالت میں ھونا چاھئے Û” اس بات Ú©ÛŒ وضاحت ضروری Ú¾Û’ کہ ولایت امر کا تعلق صرف پیغمبر  Ùˆ امام (ع) اورزمانہ غیب میں جبکہ پیغمبر  Ùˆ امام تک رسائی ممکن نھیں ،اس فقیہ سے Ú¾Û’ جسکے اندر وہ تمام شرائط پائی جاتی Ú¾ÙˆÚº جو ولی امر Ú©Û’ لئے بیان Ú©ÛŒ گئی ھیں Û” ولی امر لوگوں سے مشورہ اور رائے طلب کرنے Ú©Û’ بعد منظور ھونے والی قرار دادوں پر غور Ùˆ فکر کر Ú©Û’ ان Ú©Ùˆ منظور یا نا منظور کر سکتا Ú¾Û’ اور یہ حق ولی امر Ú©Û’ لئے ھمیشہ سے محفوظ Ú¾Û’ Û” ارشاد باری تعالیٰ Ú¾Û’ : ” Ùˆ شاور Ú¾Ù… فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہ “ ” آیت میں مشورہ کرنے پر زور ضرور Ú¾Û’ لیکن آخری فیصلہ کرنا پیغمبر Ú©Û’ ذمے Ú¾Û’ وہ بھی خدا پر بھروسہ کرتے ھوئے “ Û”

لھذا اسلام Ú©Û’ سیاسی نظام میں شوریٰ اور رائے عامہ Ú©ÛŒ خصوصیت یہ Ú¾Û’ کہ دوسرے سیاسی نظام میںصرف شوریٰ اور رائے عامہ پر Ú¾ÛŒ زور دیتے ھیں اور خدا Ùˆ پیغمبر  سے ان کا کوئی واسطہ نھیں ھوتا جبکہ اسلامی سیاست کا زور زیادہ تر خدا اور بندوں Ú©Û’ درمیان حکومت میں پیغمبر Ú©ÛŒ نظارت پر ھوتا Ú¾Û’ Û”

جو حاکمیت ولی امر کے ذریعے عملی شکل اختیار کرتی ھے ، در حقیقت اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ھے ، البتہ لوگ بھی فکر و نظر کے مالک ھیں لیکن یہ فکر و نظر بطور مطلق نھیں بلکہ اس شرط پر ھے کہ ان کے افکار و خیالات احکام و قوانین الٰھی سے مطابقت اور ولایت امر سے موافقت رکھتے ھوں ۔” لتحکم بین الناس بما اراک اللہ “(۴۴)

 Ø§Ø³Ù„ام Ú©Û’ سیاسی نظام میں قوانین Ú©Û’ مآخذ

گذشتہ بحثوں Ú©Û’ دوران اشارہ کیا جا چکا Ú¾Û’ کہ اسلام Ú©Û’ سیاسی نظام میں احکام Ùˆ قوانین وحی سے ماٴخوذ ھیں جو عالم غیب سے آنحضرت  پر نازل ھوئے اور بعد میں ان Ú©Û’ قول Ùˆ فعل سے اس Ú©ÛŒ تعبیر Ú©ÛŒ گئی Û” امت مسلمہ Ú©Û’ اعتقاد Ú©Û’ مطابق ØŒ قرآن مجید ان تمام اصولوں اور احکام Ùˆ قوانین پر مشتمل Ú¾Û’ جو ھر دور اور ھر زمانے Ú©Û’ لحاظ سے انسانوں Ú©ÛŒ ضرورت Ú©Ùˆ پورا کرتے ھیں، لھذا ھر زمانے میں رونما ھونے والے مسائل اور جزئیات Ú©Ùˆ اس کلیہ پر منطبق کر Ú©Û’ ھر وقت نتیجہ حاصل کیا جا سکتا Ú¾Û’ Û”

 ÙÙ‚ہ میں اجتھاد کا مسئلہ ایک خاص مقام رکھنے Ú©Û’ ساتھ ساتھ اس بات Ú©ÛŒ نشاندھی کرتا Ú¾Û’ کہ ھر زمانے میں احکام Ùˆ قوانین کا نفاذ ممکن Ú¾Û’ Û” کیونکہ اس کا سر چشمہ ” قرآن Ùˆ حدیث “ Ú¾Û’ Û” قرآن Ùˆ سنت سے ھر مسئلہ ØŒ ھرضرورت اور ھر مشکل کا حل ملتا Ú¾Û’ ۔لھذ اسلام ،سیاست Ùˆ ریاست اورقانون Ùˆ آئین میں کبھی خاموش نظر نھیں آتا Û” اجتھاد انسان Ú©Û’ انفرادی ØŒ اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی مسائل Ùˆ معاملات میں معقول حل دریافت کر سکتا Ú¾Û’ Û” ” لتحکم بین الناس بما اراک اللہ “(Û´Ûµ)

قوانین کے نفاذ کی ضمانت

 Ø§Ø³Ù„ام Ú©Û’ سیاسی نظام میں اگر چہ احکام الٰھی Ú©Û’ نفاذ Ú©ÛŒ زیادہ تر ذمہ داری ملک Ú©Û’ سر براہ پر عائد ھوتی Ú¾Û’ ØŒ لیکن امت کا ھر فرد بھی اس بات کا پابند Ú¾Û’ کہ وہ نفاذ قوانین میں خود Ú©Ùˆ ذمہ دار سمجھے ØŒ کیونکہ اسلامی نظام میں قوانین محض خشک Ùˆ جبری ضوابط نھیں ھیں جس سے لوگ اکتا کر بھاگ جائیں بلکہ ان کا شمار ان فرائض میں ھوتا Ú¾Û’ جن Ú©Ùˆ ایک مسلمان خدا سے لگاؤ اور اس Ú©ÛŒ خوشنودی اور سعادت حاصل کرنے Ú©Û’ لئے انجام دیتا Ú¾Û’ یھی وجہ Ú¾Û’ کہ اس طرح Ú©Û’ نظام میں قوانین کا نفاذ اسلامی حکومت Ú©Û’ لئے زحمت پیدا نھیں کرتا ØŒ اگر چہ ھر معاشرے میں کچہ ایسے افراد ضرور ھوتے ھیں جو قانون Ø´Ú©Ù†ÛŒ پر کمر بستہ رھتے ھیں ۔اسلامی حکومت ایسے افراد سے نپٹنے Ú©Û’ لئے قانونی اور شرعی سزائیں دینے Ú©ÛŒ مجاز Ú¾Û’ اور اسلام کا قانون سزا ایسے Ú¾ÛŒ افراد Ú©Û’ لئے وضع کیا گیا Ú¾Û’ Û” اس Ú©Û’ مقابلے میں معاشرے Ú©Û’ وہ افراد بھت نمایاں ھیں جو فکری Ùˆ عملی طور پر خوشی خوشی اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ھیں :

” انما کان قول المؤمنین اذا دعوا الی اللہ و رسولہ لیحکم بینھم ان یقولوا سمعنا و اطعنا و اولئک ھم المفلحون “ (۴۶)” جس وقت بھی مومنین خدا اور اس کے رسول کی طرف اس غرض سے بلائے جائیں کہ رسول ان کے ما بین فیصلہ کرے توان کا قول اس کے سوا اور کچہ ھوتا ھی نھیں کہ وہ کھتے ھیں کہ ھم نے سنا اور اطاعت کی اور وھی فلاح پانے والے ھیں ۔

” فلا و ربک لا یومنون حتیٰ یحکموک فیما شجر بینھم “ (۴۷)” خدا کی قسم وہ ایمان ھی نھیں لائینگے جب تک کہ اپنے ذاتی اختلافات میں تمھیں حَکَم نہ بنا لیں ۔

 Ø§Ø³Ù„امی معاشرے میں تو یھاں تک Ú¾Û’ کہ اگر کوئی مسلمان گروہ جھگڑا تا Ú¾Û’ تو تمام مسلمان اس گروہ Ú©ÛŒ اصلاح کرنے Ú©Û’ پابند ھیں اور اگر اصلاح طلب Ú©Ùˆ ششیں کرنے Ú©Û’ با وجود بھی فریق مخالف نہ مانے تو ان Ú©Û’ ساتھ وہ رویہ اختیار کریں جس سے ان Ú©Û’ فساد کا خاتمہ Ú¾Ùˆ جائے اور تمام اسلامی خطوں میں حق پھیل جائے Û”



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 next