اصلاح امت اور حضرت علی علیه السلام



یہ تقوی اپنے آپ کوگذشتہ اور آئندہ آنے والی امتوں کے سامنے ھمیشہ پیش کرتا رھاھے کیونکہ ان سب کو کل اس کی ضرورت ھو گی ۔کل جب خداوند عالم اپنی مخلوق کو دوبارہ پلٹائے گا اور جو ان کو دے رکھا ھے وہ واپس لے گا اور اپنی بخشی ھوئی نعمتوں کے بارے میں سوال کرے گا تو اسے قبول کرنے والے اور اس کا پورا پورا حق ادا کرنے والے بھت ھی کم نکلیں گے وہ گنتی کے اعتبار سے کم اورالله کے اس قول کے مصداق ھیں”میرے بندوں میں شکر گزار بندے کم ھیں اس کے بعدحضرت اسی خطبہ میں مزید فرماتے ھیں:

اٴیقظوا بھا نومَکُم واقطعوا بھا یَومَکم واشعروھا قلوبَکم وارحَضوا بھا ذُنُوبَکم وداووا بھا الاٴسقام Ùˆ بادروا  بھا الحِمام واعتبروابمَن اٴضاعھا ولا یَعتَبِرَنَّ بکَم Ù…ÙŽÙ† اٴطاعھا۔

اسے خواب غفلت سے چونکنے کا ذریعہ بناؤاور اسی میں اپنے دن کاٹ دو اور اسے اپنے دلوں کا شعار بناؤ اور گناھوں کو اس کے ذریعہ سے دھوڈالو اور اس سے اپنی بیماریوں کا علاج کرو اور موت سے پھلے اس کا توشہ حاصل کرو اور جنھوں نے اسے ضائع و برباد کیا ھے ان سے عبرت حاصل کرو جوتقویٰ پر عمل کرے گا دوسروں کیلئے نمونہ عمل قرار پائے گا ۔[11]

کلمات قصار‘ جلالت معنیٰ اور بھترین روش کا ایجاد کرنا

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ اسلام Ú©Û’ کلمات قصار جلالت معنی Ù° اور  بداعات سبب کا اعلیٰ نمونہ ھیں جیسا کہ آپ ارشاد فرماتے ھیں :

فاِنَّ الغایة اٴمامَکُم واٴنَّ وراء کُم الساعةَ تحدوکم تَخفّفوا تلحقو افاِنّما یُنَتظَرُ باوّلِکُم آخرِکم ۔

تمہاری منزل مقصود تمہارے سامنے ھے موت کی ساعت تمہارے پیچھے ھے جو تمھیں آگے کی طرف لئے چل رھی ھے ھلکے پھلکے رھوتاکہ آگے بڑھنے والوں کو پاسکوتم سے پھلے جانے والے، آنے والوں کے منتظر ھیں تاکہ یہ بھی ان تک پھنچ جائیں ۔

سید رضی فرماتے ھیں کہ کلام خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جس کلام سے بھی ان کلمات کا موازنہ کیا جائے تو حسن و خوبی میںان کا پلہ بھاری رھے گا اور ھر حیثیت سے یہ کلمات ممتاز نظر آئیں گے ۔[12]

لوگوں کوعمل صالح کی طرف رغبت دلانا

لوگوں کو عمل صالح کی طرف رغبت دلاتے ھوئے حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ارشاد فرماتے ھیں :

اِن المالَ والبنینَ حرثُ الدنیاوالعمل الصالح حرثٌ الٓاخرة۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 next