ازدواجي زندگى



اس بلیغ فقرہ سے مختلف مسائل کاحل تلاش کياگياہے اولا بات کویک طرفہ رکھا گياہے اورلباس کى طرح فریقین کوذمہ داربناگياہے بلکہ مرد کومخاطب کياگياہے کہ اس رخ سے سارى ذمہ دارى مردپرعائد ہوتي ہے اورکھیتى کى بقاکامکمل انتظام کاشتکارکے ذمہ ہے زراعت سے اس کاکوئى تعلق نہيں ہے جب کہ پردہ پوشى اورسردوگرم زمانے سے تحفظ دونوں کى ذمہ داريوں ميں شامل تھا ۔

دوسرى طرف اس نکتہ کى بھى وضاحت کردى گئى ہے کہ عورت کے رابطہ اورتعلق ميں اس کى اس حیثیت کالحاظ بہرحال ضرورى ہے کہ وہ زراعت کى حیثیت رکھتى ہے اورزراعت کے بارے ميں کاشتکارکويہ اختيارتودياجاسکتاہے کہ فصل کے تقاضوں کودیکھ کرکھیت کوافتادہ چھوڑ دے اورزرعت نہ کرے ليکن يہ اختيارنہيں دياجاسکتاہے کہ اسے تباہ وبرباد کردے اورقبل ازوقت ياناوقت زراعت شروع کردے کہ اسے زراعت نہيں کہتے ہيں بلکہ ہلاکت کہتے ہيں اورہلاکت کسى قیمت پرجائزنہيں قراردي جاسکتى ہے ۔

مختصريہ ہے کہ اسلام Ù†Û’ رشتہٴ Ø§Ø²Ø¯ÙˆØ§Ø¬ کوپہلى منزل پرفطرت کاتقاضاقرارديا ۔پھرداخلى طورپراس ميں محبت اوررحمت کااضافہ کيا اورظاہرى طورپرحفاظت اورپردہ پوشى کواس کاشرعى نتيجہ قرارديااورآخرميں استعمال Ú©Û’ تمام شرائط وقوانین Ú©Ù‰ طرف اشارہ کردياتاکہ کسى بدعنوانى ،بے ربطى اوربے لطفى نہ پیداہونے پائے اورزندگى خوشگواراندازسے گذرجائے

 

 



back 1 next