جمع بين صلاتين



۷۔حَدَّ ثَنَا ابْنُ اٴَبِی عُمَرَحَدَّثَنَا وَکِیعٌ حَدَّثَنَاعِمرانُ بْنُ جُدَیْرٍ عَنْ عَبْدِا للهِ بْنِ شقیقٍ الْعُْقَیْلِیَّ قٰالَ:قٰالَ رَجُلٌ لاِبْنِ عَبّٰاسٍ:الصَّلاٰةَ!الصَّلاٰةَ!فَسَکَتَ،ثُمَّ قٰالَ:الصَّلاٰةَ!فَسَکَتَ،ثُمَّ قٰالَ:الصَّلاٰةَ!فَسَکَتَ ،ثُمَّ قٰالَ:

لاٰ اٴُمَّ لَکَ !اٴَتعَلَّمُنٰا بِالصَّلاٰةِ وَکُنّٰا نَجْمَعُ بَیْنَ الصَّلاٰ تَیْنِ عَلٰی عَھْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَسَلَّم؛[32]

عبدالله بن شقیق عقیلی کہتے ھیں کہ ایک شخص نے ابن عباس سے کھا :نماز،نماز۔ ابن عباس خاموش رھے پھر دوبارہ اس نے کھا:نماز ،پھر بھی خاموش رھے پھر کھا:نماز۔ تو ابن عباس نے اس کو ڈانتے ھوئے کھا:تیری ما ں تیرے غم میں بیٹھے کیا تم مجھے نماز کی تعلیم دیتے ھو ھم تو پیغمبر اسلام (ص)کے زمانے میں ھی دو نمازوں کو اکٹھے پڑھتے تھے۔

یہ بعض احادیث تھیں جنھیں مسلم نے اپنی کتاب میں”بٰابُ الْجَمْعِ بَیْنَ الصّلاٰتَیْنِ فِی الْحَضَرِ “ میں بیان کیا ھے۔

(ب)صحیح بخاری کی احادیث :

بخاری کی کوشش یہ رھی ھے کہ مکمل احتیاط کے ساتھ کوئی چیز سرکاری موقف کے خلاف نہ کھا جائے اور کوئی بات اھل بیت علیھم السلام کے نظریہ کے مطابق نہ بیان کی جائے پھر بھی کچھ گذشتہ احادیث کو مختلف عناوین کے تحت بیان کیا ھے جب کہ دوسری احادیث بھی اس کے شرائط پر پوری اترتی ھیں لیکن انھیں ذکر نھیں کرتے ھیں اس کی وجہ خود بخاری بہتر جانتے ھیں۔

بھر حال بعض احادیث ،جو اکٹھے پڑھنے کے بارے میں اطلاق رکھتی ھیں، غیر سفر کو بھی شامل ھیں اور بخاری نے اپنی ”صحیح“ میں بیان کیا ھے، مندرجہ ذیل ھیں۔

۱۔حَدَّثَنٰا آدَمَ ،قٰالَ :حَدَّثَنٰا شُعْبَةُ ،قٰالَ: حَدَّثَنٰا عَمْرُ وَ بْنُ دِینٰارٍ ، قٰالَ : سَمِعْتُ جٰابِرِبْنِ زَیْدٍ عَنْ عَبْدِاللهِ ابْنِ عَبّٰاسٍ ،قٰالَ:

صَلَّی النَّبِیُّصَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سَبْعاًجَمِیعاً وَ ثَمٰانِیاً جَمِیعاً؛[33]

عبدا لله ابن عباس کہتے ھیں کہ پیغمبر اسلام (ص)نے سات رکعت (نماز مغرب اور عشاء ) اکٹھے اور آٹھ رکعت (نماز ظھر اور عصر )اکٹھے پڑھی۔

۲۔”ذِکْرُ الْعِشٰاءِ وَ العَتَمَةِوَ مَنْ رَءٰ آہُ وٰاسِعاً“[34]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next