جمع بين صلاتين



جیساکہ عطاء ظھر Ú©ÛŒ نماز Ú©Û’ بارے میں کہتے ھیں:”سورج Ú©ÛŒ زردی نمودار ھونے تک ظھر Ú©ÛŒ نماز میں دیر کرنے میں کوئی کوتاھی نھیں Ú¾Û’ “اور طاوٴس کہتے ھیں ”ظھر Ùˆ عصر Ú©ÛŒ نمازوں کا وقت رات تک ھے“اور  مالک بھی ظھر Ú©ÛŒ نماز Ú©Û’ اداھونے Ú©Û’ وقت (نہ اختیاری وقت)Ú©Ùˆ عصر Ú©ÛŒ نماز Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ Ú©Û’ برابر وقت Ú©Û’ علاوہ سورج Ú©Û’ غروب تک Ú©Ùˆ قرار دیتے ھیں اور اس Ú©ÛŒ یہ تو جیہ Ú©ÛŒ Ú¾Û’ کہ چونکہ پیغمبر اسلام (ص)سفر Ú©Û’ بغیر (بھی)ظھراور عصر Ú©ÛŒ نمازوں میں جمع فرماتے تھے۔[62]

 Ø¨Ú¾Ø± حال جمع بین صلاتین Ú©Ùˆ عادت نہ بنانے Ú©ÛŒ قید بھی ایسی تاویل Ú¾Û’ جسے Ú©Ú†Ú¾ لوگوں Ù†Û’ صحیح احادیث پر اضافہ کیا Ú¾Û’ اور اس پر کوئی دلیل نھیں ھے،باجود اس Ú©Û’ کہ پیغمبر اسلام (ص)یہ نھیں چاہتے تھے کہ آپ Ú©ÛŒ امت کسی مشقت میں پڑے،بعض لوگ اپنی عادات Ùˆ رسوم Ú©ÛŒ بناء پر اپنی طرف سے Ú©Ú†Ú¾ قیود کا اضافہ کرتے ھیں جس میں خود اورپیغمبر اسلام (ص)Ú©ÛŒ امت کومبتلاء کر دیا Ú¾Û’ØŒ جب کہ قرآن مجید میں ارشاد Ú¾Û’:

          <یُرِیدُ اللهُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاٰ یُرِیدُ بِکُمُ الْعُسْرَ>Ø›[63]

خدا تمھارے لئے آسایش چاہتا ھے اور دشواری نھیں چاہتا ۔

بلکہ کھا جاسکتا ھے کہ پیغمبر اسلام (ص)بہت سے مقامات پر، اگر نہ کھیں اکثر مقامات پر، جمع بین صلاتین فرماتے تھے جیسا کہ ابن عباس اور انس بن مالک سے منقول ھے احادیث کہ جن میں ماضی استمراری کا استعمال ھوا ھے”کُنّا نَجْمَعُ“و”کُنّٰا نُصَلّی مَعَہُ“ سے پتہ چلتا ھے اور عایشہ سے منقول ساری احادیث اور ان سب احادیث سے بھی جو عصر کی نماز میں جلدی کرنے پر دلالت کرتی ھیں یھی معلوم ھوتا ھے۔

البتہ جمع بین صلاتین سے مراد جو پیغمبر اسلام (ص)کی اکثر سیر ت رھی ھے جمع تقدیم ھے نہ تاٴخیر ،اگر چہ جمع تاٴ خیر بھی منقول ھے۔البتہ یہ بات واضح رھے کہ اگر جمع کی کیفیت اس طرح ھو کہ جس سے نوافل چھوڑنا پڑے تو جمع، نوافل [64] چھوڑنے کی وجہ سے مرجوح ھے لیکن یہ جمع سنت کو سبک سمجھنے اور اس سے رو گردانی کی وجہ سے ھو توحرام ھو گا شاید جنھوں نے جمع بین صلاتین کو اس شرط پر، کہ اسے عادت نہ بنائے، جائز سمجھا ھے ان کی وجہ یھی ھو یعنی ایسی عادت بنے جس سے سنت کو سبک سمجھنا اور اس سے رو گردانی کرنا لازم آتا ھے البتہ یہ حرمت، نوافل کو سبک سمجھنے کی حد تک ھے لیکن نوافل کی بجاآوری کے بعد کوئی اور مانع نھیں ھے۔

البتہ نمازوں کے افضل اوقات ایک الگ بحث ھے جس کے لئے ایک اورموقع کی ضرورت ھے جس کے بارے میں علماء شیعہ کے ھاں مختلف آراء ھیں ھم نے جو کچھ بیان کیا وہ اھل سنت کی احادیث کی رو سے ھے۔

جمع بین صلاتین میں فقھاء کے اقوال کا خلاصہ

 Ø¬Ù…ع بین صلاتین Ú©Û’ بارے میں فقھاء Ú©Û’ اقوال کاخلاصہ یہ Ú¾Û’:Û”

۱۔حنفیوںکا قول:وہ لوگ جمع بین صلاتین کو جائز نھیں سجھتے ھیں نہ سفر میں اور نہ حضر میں بلکہ کسی عذر کی وجہ سے بھی ،فقط دو موقع پر جائز سمجھتے ھیں مزدلفہ اور عرفات میں،وہ بھی کچھ خاص شرائط کے ساتھ۔

۲۔شافعیہ کا مشھور قول :وہ جمع بین صلاتین کو جائز سمجھتے ھیں وہ بھی سفر ،بارش اور برف کے وقت مخصوص شرائط کے ساتھ ،لیکن سخت اندھیر ے کی و جہ سے یا ھوا،خوف اورمرض کی وجہ سے جمع بین صلاتین جائز نھیں ھے۔

۳۔مالکیہ کا مشھور قول:ان کی نظر میں جواز جمع بین صلاتین کے یہ اسباب ھیں:سفر، بیماری،بارش (مھینے کے آخر ھونے کے ساتھ ھوا کا تاریک ھونا)عرفہ اور مزدلفہ میں حاجیوں کے لئے مخصوص شرائط کے ساتھ۔

۴۔حنبلیوں کا قول: وہ ان مواقع میں جمع بین صلاتین کو جائز سجھتے ھیں:عرفہ اور مزدلفہ میں،مسافر ،بیمار،دودھ دینے والی عورت ،استحاضہ والی عورت ،سلس البول [65]والا ،پانی اور مٹی سے طھارت سے قاصر شخص،وقت کی پہچان سے قاصر شخص ،اپنے جان ،مال اور عزت پر خطرہ رکھنے والا،کسی درندہ سے خوف رکھنے والا، اسی طرح ،برف ،بارش،سردی،ھوا کا خاک آلود ھونا یہ سب اسباب جمع بین صلاتین کے لئے حنابلہ کے ھاں تسلیم شدہ ھیں ان کے لئے وہ لوگ کچھ شرائط بھی بیان کرتے ھیں۔

۵۔اصحاب حدیث کا ایک گروہ اور کچھ شافعیوں وغیرہ کا قول:غیر سفر میں کسی ضرورت کے پیش نظر بطور مطلق جائز ھے جب کہ اس کو عاد ت نہ بنائے ۔

۶۔ابن شبرمہ کا قول: ان کی نظر میں بغیر کسی ضرورت کے بھی جمع بین صلاتین جائز ھے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ اس کی عادت نہ بنائے۔

۷۔قفال کے نقل کے مطابق ،ابن منذراور ابن سیرین کا قول:یہ لوگ غیر سفر میں جمع بین صلاتین کو بطور مطلق اور بغیر کسی شرط کے جائز سمجھتے ھیں[66]

اور احادیث صحیح جس کی تصدیق کرتی ھیں اور قرآن کی آیات کے اطلاقات کے مطابق ھے وہ یھی (آخری)قول ھے اھل بیت علیھم السلام کی پیروی کرتے ھوئے مذھب امامیہ بھی اسی قو ل کو انتخاب کرتے ھیں ۔

عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَرِّبْ وَجْھَکَ[67]

 Ø±Ø³Ùˆ Ù„ اکرم (ص)سے مروی Ú¾Û’ کہ !سجدے Ú©ÛŒ حالت میں اپنے چھرے Ú©Ùˆ زمین پر رکھو۔



[1] نماز عصر کو نماز ظھر کے فوراً بعد پڑھنا اسی طرح نماز عشاء کو نماز مغرب کے فوراًبعد پڑھنے کو جمع تقدیم کہتے ھیں
[2] نماز ظھر اور عصر کو عصر کے وقت پڑھنا اور نماز مغرب اور عشاء کو مغرب کے وقت سے کچھ دیر بعد پڑھنے کو جمع تاٴخیر کہتے ھیں
[3] ایرانیوں سے مراد شیعہ ھے کیونکہ ان کی اکثریت شیعہ ھونے کی وجہ سے شیعہ کو ایرانی کے مترادف سمجھا جاتا ھے
[4] صاحب ”البحر الرائق“کہتے ھیں”بہت سے لوگوں Ú©Ùˆ سفر میں خصوصا ًحج Ú©Û’ دوران دیکھا Ú¾Û’ کہ دونوں نماز ایک ساتھ پڑھتے ھیں یہ لوگ اس کام میں امام شافعی Ú©ÛŒ تقلیدکرتے ھیں “رجوع کریں:ج۱ص۳۶۷۔البتہ سفر Ú©ÛŒ وجہ سے قصر  اور جمع کا جائز ھونا موردبحث Ú¾Û’Û”
[5] الزخرف آیہ ۲۳۔
[6] السنن الکبری ج۲ ص۳۴۵
[7] الاسراء آیہ۷۸ 
[8] معجم مقاییس اللغةج۲ص۲۹۸
[9] حرف الدال باب الدال مع اللام ص ۱۳۰
[10] لسان العرب مادہ دلک۔
[11] مجمع البیان ج۶ ص۴۳۳۔
[12] الدر المنثور ج۴ص۱۹۵
[13] وسایل الشیعہ ابواب المواقیت حدیث۴۷۹۹
[14] آیہ میں ”دلوک شمس“سے مراد ”زوال شمس “ یعنی آدھادن ھے نہ سورج کا غروب ھونا، السنن الکبری ج۱ ص ۳۶۴
[15] معجم مقاییس االلغہ ج۴ص۴۲۵
[16] الدر النثورج۴س۱۹۵
[17] البتہ ان دونوں میں تر تیب کی رعایت ضروری ھے یعنی پھلے نمازظھر پڑھی جائے پھر نماز عصر ،نماز ظھر کے پڑھے بغیر نماز عصر پڑھنا غلط ھے اسی طرح اگر غیر مسافر کے لئے غروب سے پھلے فقط چار رکعت نماز کا وقت باقی رہ گیا ھو تو وہ فقط نماز ظھر بجا لائے گا یھی حکم مغربین کے بارے میں بھی صادق ھے۔
[18] وسایل الشیعہ ابواب عدد الفرائض و نو افلھا باب۲
[19] تفسیر کبیر ج۲۱ ص۲۷
[20] تفسیر کبیر ج۲۱ ص۲۷
[21] تفسیر روح المعانی ج۱۵ص۱۳۳و۱۳۲
[22] سفر کے بغیر(یعنی حضر میں)دو نمازوں کا اکٹھا پڑھنا ،صحیح مسلم ج۲ ص۱۵۱،شرح نووی میں اس عنوان کو حذف کیا گیا ھے۔
[23] صحیح مسلم ج۲کتا ب صلواة المسافرین و قصرھا ص۱۵۱حدیث ۱۱۴۶
[24] صحیح مسلم ج۲کتاب صلوة المسافرین و قصرھا ص۱۵۱حدیث ۱۱۴۷
[25] صحیح مسلم ج۲ کتاب الصلواة المسافرین ص۱۵۲حدیث ۱۱۵۱
[26] صحیح مسلم ج۲ کتاب الصلواة المسافرین ص۱۵۲حدیث ۱۱۵۲
[27] ابو شعشاء جابر بن زید کا کنیہ ھے۔
[28] النجم آیہ۲۸
[29] صحیح مسلم ج۲ کتاب الصلواة المسافرین و قصرھاص۱۵۲حدیث ۱۱۵۳
[30] صحیح مسلم ج۲ کتاب صلواة المسافر ص۱۵۲حدیث۱۱۵۴
[31] یعنی نماز مغرب کا وقت ھے پیغمبر اسلام (ص)کی سنت کے مطابق ان کی نظر میں مغرب کو ابتداء میں ھی پڑھنا واجب ھے اور عشاء کے وقت تک اس میں تاٴخیر کرنے کی اجازت نھیں۔
[32] صحیح مسلم ج۲ کتاب صلواة المسافرین ص۱۵۲حدیث ۱۱۵۵
[33] صحیح بخاری کتاب موا قیت الصلواة ج۱ص۱۴۰ حدیث ۵۶۲فتح الباری حدیث ۵۲۹۔
[34] نماز عشاء اور اس کے وقت اور وہ شخص جس کے لئے عشاء کا وقت وسیع ھے کے بارے میں والے باب میں آیا ھے:
[35] صحیح بخاری کتاب موا قیت الصلواة ج۱ص۱۴۱فتح الباری باب ۲۰حدیث ۵۳۰
[36] جو واجب نماز کے بعد نافلہ بجانہ لائے والے باب میں آیاھے:
[37] صحیح بخاری کتاب الجمعہ ج۱ باب ۳۰حدیث ۱۱۷۴ فتح الباری حدیث ۱۱۰۳
[38] صحیح بخاری کتاب موا قیت الصلواة ج۱ ص۱۳۷ حدیث ۵۴۳۔
[39] تحفة الباری ج۲ص۲۹۲،منقول از مسایل فقھیہ تالیف امام شرف الدین ص۱۴۔
[40] باب نماز ظھر کا نماز عصر کے ساتھ اور نماز مغرب کا نماز عشاء کے ساتھ پڑھنا ۔
[41] صحیح بخاری ج۱کتاب مواقیت صلواة ص۱۳۸حدیث ۵۱۶۔
[42] صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلواة حدیث ۵۱۲۔
[43] صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلواة حدیث ۵۱۳
[44] صحیح مسلم کتا ب المساجد و مواضع الصلواة حدیث نمبر ۹۶۱
[45] مسند احمد بن حنبل مسند بنی ھاشم ج۱ ص۲۲۱حدیث ۱۸۱۸
[46] مسند احمد بن حنبل ج۱ مسند بنی ھاشم ص۲۲۱حدیث ۱۸۲۸
[47] معجم الاوسط للطبرانی ج۴ص۲۵۲
[48] عبدالرزاق صنعانی ،المصنف، نشر المجلس العلمی ج۲ص۵۵۶
[49] سنن تر مذی، ج۱ص۳۵۶
[50] ذی الحجہ کے نویں دن،عرفہ کا دن ھے اس دن حاجی پر ظھر سے سورج غروب ھونے تک عرفات کے مقام پر ٹھھر نا واجب ھے ۔
[51] عید قربان کی رات مزدلفہ کی رات، حاجی پر اس رات کا مشعرالحرام کے مقام پر گذارنا واجب ھے۔
[52] السنن الکبری ج۳ص۱۶۹
[53] شرح نووی ج۵ ص۲۱۸،تفسیر روح المعانی ج۱۵آیہ دلوک کی تفسیر میں۔
[54] شرح نووی ج۵ ص۲۱۸
[55] فتح الباری ج۲ص۳۰
[56] یعنی نماز ظھر کو اس کے آخری وقت میں پڑھنا اور نماز عصر کو اس کے اپنے وقت کی ابتداء میں پڑھنا ۔
[57] ”(جمع بین صلاتین اس لئے جائز ھوا ھے تاکہ )پیغمبر اسلام (ص)چاہتے تھے کہ اپنی امت کے لئے مشقت نہ ھو“
[58] شرح نووی ج۵ ص۲۱۹
[59] المغنی و الشرح الکبیر ج۲ص۱۲۲حدیث ۱۲۶۳
[60] المجموع ج ۴ص ۲۶۳،مکتبہ الارشاد،سعودی عرب ۔
[61] حلیة العلماء ج۲ ص۲۴۴
[62] المغنی ج۱ص۳۸۲
[63] البقرہ آیہ ۱۸۵
[64] اگر چہ خود نوافل کے بارے میں بھی اختلاف ھے ۔
[65] جس کاپیشاب اپنے اختیار سے نھیں نکلتا ۔
[66] ان اقوال کے لئے دیکھئے :الفقہ علی المذاھب الاربعہ ،المغنی ،الشرح الکبیر ،المجموع، حلیة الاولیاء،وغیرہ
[67] (سنن ترمذی ج۱ ص۳۴۸)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19