اسلام كی نظر ميں دوستی کی اهميت



اقوالِ معصومین میں دوستی

ہم نے جو كچھ عرض كیا اس سے واضح ہے كہ یہ آیت (سورئہ ابراہیم كی آیت ۲۲) بہت سی احادیث كے معنی كو اجاگر كرتی ہے۔ رسول اسلام كی ایك حدیث ہے جس میں آنحضرت فرماتے ہیں: اَلمَرئُ عَلیٰ دِینِ خَلِیلِہِ فَلیَنظُر اَحَدُكُم اِلیٰ مَن یُخٰالِلُ ہر شخص اپنے دوست كی عادات و اطوار اپناتاہے لہٰذا تم میں سے ہر ایك كو نظر ركھنا چاہۓ كہ وہ كس سے دوستی كررہا ہے۔ یعنی دوستی اور میل جول انسان پر اثر انداز ہوتی ہے اور اسی كے زیر اثر وہ اپنے دوستوں اور ملنے جلنے والوں كا دین اپنا لیتا ہے۔ لہٰذا جب بھی كسی سے دوستی كرنا چاہیں تو اس شخص كے دین كی تحقیق كرلیں اور جب تك مطمئن نہ ہوجائں كہ مدِمقابل آپ كو آپ كے عقیدے اور دین سے منحرف نہ كرے گا اور نہ صرف آپ كو آپ كے دین سے گمراہ نہ كرے گابلكہ آپ كے دین میں تقویت كا بھی باعث ہو گا اس وقت تك اسكی جانب دوستی كا ہاتھ نہ بڑھائں۔ اس كے ساتھ ساتھ انسانوں كے بارے میں فیصلہ كرنے كا ایك ذریعہ ان كے دوست بھی ہیں۔ لہٰذا اگر آپ كسی انسان كے اچھا یا برا ہونے كا فیصلہ كرنا چاہتے ہیں تو یہ فیصلہ كس بنیاد اور كسوٹی پر كریں گے؟ حضرت سلیمان بن داؤد فرماتے ہیں: لٰا تُحَكِّمُوا عَلیٰ رَجُلٍ بِشَیئٍ حَتّٰی تَنظِرُوا لیٰ مَن یُصٰاحِبكسی شخص كے بارے میں اس وقت تك فیصلہ نہ دو جب تك یہ نہ دیكھ لو كہ وہ كس كے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے۔ یہ وہی معروف مثل ہے جس میں كہا گیا ہے كہ: تم بتائو كس كے دوست ہو تاكہ ہم بتائں كہ تم كون ہو۔ او رحقیت بھی یہی ہے۔ انسان كو اس كے ہم فكر، ہمدل اور ہمدم سے پہچانا جا سكتا ہے ۔اس لۓ كہ ہر شخص اپنے ہم رنگ سے مانوس ہوتا ہے: ایك دوسری حدیث میں پیغمبر اسلام سے نقل ہوا ہے: ختَبُروا النَّاسَ بِاَخدَانِہِملوگوں كی شناخت ان كے دوستوں كے ذریعے كرو۔ اخدان خدین كی جمع ہے خدین یعنی ہم راز دوست یا راز محفوظ ركھنے والا دوست لہٰذا جو كوئ بھی اپنے لۓ كسی كو ہمراز دوست كے بطور منتخب كرتا ہے ، درحقیقت اس سے فكری وروحی مماثلت ركھتا ہے۔ اور یہ احادیث اس بات كی شدیدتاكید كررہی ہےں كہ دوستی مشكلات كا سبب اور خطرناك بھی ہوسكتی ہے۔ واضح سی بات ہے كہ جب انسان كسی كی جانب كشش محسوس كرتا ہے اور اسكا شیفتہ ہوتا ہے تو دراصل اسكی صفات اور عادات و اطوار كا شیفتہ ہوتا ہے اسكی شخصیت كے عناصر سامنے والے فرد كی شخصیت كے عناصر سے نزدیك ہوتے ہیں۔

حضرت علیں فرماتے ہیں:اَلنَّفُوسُ اَشكٰالٌ فَمَا تَشَاكَلَ مِنہٰا اِتَّفَقَ وَالنَّاسُ اِلیٰ اَشكٰالِہِم اَمیَلُ نفوس مختلف اور طرح طرح كی شكلوں كے ہوتے ہیں ایك جیسی شكلیں آپس میں مل جاتی ہیں اور لوگ اپنی شكلوں كی جانب زیادہ مائل ہوتے ہیں۔ایك دوسری حدیث میں فرمایا: فَسَادُالاَخلاٰقِ مَعٰاشِرُة السُّفہٰائِ وَصَلاٰحُ الاَخلاٰقِ بِمُنٰافِسَةِ العُقَلاٰئِ وَالخَلقُ اَشكٰالٌ فَكُلٌّ یَعمَلُ عَلیٰ شَاكِلَتِہِ وَالنّٰاسُ اِخوٰانٌ فَمَن كٰانَت اِخوَتُہُ فِی غَیرِ ذَاتِ اللّٰہِ فَاِنَّہٰا تَحُوزُ عَدَاوَةً وَذٰالِكَ قَولُہُ تَعٰالیٰ: اَلاٰخَلاّٰئَُ یَومَئِذٍ بَعضُہُم لِبَعضٍ عَدُوٌّ اِلاّٰ المُتَّقِینَ احمقوں اور بےوقوفوں كے ساتھ ہم نشینی اخلاقی بگاڑ پیداكرتی ہے اور عقلمندوں كے ساتھ میل جول اخلاقی سدھار كا موجب ہوتا ہے۔ لوگ طرح طرح كے ہوتے ہیں اور ہر شخص اپنے جیسے شخص كے ساتھ گامزن ہے ۔ لوگ آپس میں بھائ بھائ ہیں ۔ اب جس كی برادری بھی خدا كے لۓ نہ ہو دشمنی میں تبدیل ہوجاتی ہے اور یہی پروردگارِ عالم كے اس قول كے معنی ہیں كہ: اس دن سارے دوست ایك دوسرے كے دشمن ہوجائں گے سواۓ متقین كے ۔ قرآن كریم نے حساب اور عذاب كے موقع پر برے دوست كی كیفیت كے متعلق اس طرح فرمایا ہے: قٰالَ قَائِلٌ مِنہُم اِنّی كٰانَ لِی قَرِینٌ یَقُولُ اَئِنَّكَ لَمِنَ المُصَدِّقِینَ اَئِذٰا مِتنٰا وَكُنّٰا تُرٰاباً وَعِظٰاماًأَ ئِ نَّا لَمَدیِنُونَ قَالَ ہَل اَنتُم مُطَّلِعُونَ فَاطَّلَعَ فَر ہُ فِی سَوَائِ الجَحیمِ قَالَ تَاللّٰہِ اِن كِدتَ لَتُردِینَ انھیں میںسے ایك كہنے والا كہے گا كہ دنیا میں میرا ایك دوست تھا اور (مجھ سے) كہا كرتا تھاكہ كیا تم بھی قیامت كی تصدیق كرنے والوں میں سے ہو۔ بھلا جب ہم مركر مٹی اور ہڈی ہو جائں گے تو ہمیں ہمارے عمل كا بدلہ دیا جاۓ گا (پھر بہشت میں اپنے ساتھیوں سے كہے گا) كیا تم لوگ بھی اسے دیكھوگے۔ یہ كہہ كر نگاہ ڈالی تو اسے بیچ جہنم میں پڑا ہوا دیكھا (یہ دیكھ كر بے ساختہ) كہے گا كہ خدا كی قسم قریب تھا كہ تو مجھے بھی تباہ كر دیتا ۔ (سورئہ صافات ۳۷ آیت ۵۱ ۵۶)

توہمیں ہوشیار رہنا چاہۓ اور ایسے دوست بنانے چاہئں جو اہلِ بہشت میں سے ہوں جنہیں لوگ ان كے ایمان اور عمل صالح كی وجہ سے پہچانتے ہوں اہلِ كفر و عذاب میں سے نہ ہوں۔جب انسان روزِ قیامت اپنے برے دوست كو دیكھے گا تو پشیمان ہوگا او رایسے دوست كی دوستی پر كفِ افسوس ملے گا۔ قرآن مجید نے اس لمحے كی اس كیفیت كو ان الفاظ میں بیان كیا ہے: قَالَ یٰالَیتَ بَینی وَبَینَكَ بُعدَ المَشرِقَینِ فَبِئسَ القَرِینِكہے گا كاش میرے اور تیرے درمیان مشرق ومغرب كا فاصلہ ہوتا یہ تو بڑا بدترین ساتھی نكلا۔ (سورئہ زخرف ۴۳ آیت ۳۸) اے كاش میں كبھی نہ تجھ سے ملا ہوتا میرے اور تیرے درمیان اس قدر فاصلہ ہوتا كہ كبھی ہماری ملاقات نہ ہوئ ہوتی ۔مجھے یاد ہے كہ تونے مجھ میں كیسے كیسے وسوسے پیدا كۓ مجھے گمراہ كیا اور ایسے راستے پر ڈال دیا جس كا انجام دوزخ میں ڈالے جانے كی صورت میں برآمد ہوا۔ پروردگارِ عالم برے دوست كی كیفیت كے متعلق اس طرح فرماتا ہے: جب انسان كے عمل كا حساب وكتاب ہورہا ہوگا اورجب وہ پرودگارِعالم كی عدالت میں اس كے سامنے كھڑا ہوگا تو اپنے اعمالِ بد كے لۓ عذر پیش كرے گا بہانے تلاش كرے گا اوراپنی گمراہی كاالزام اپنے دوست كے سر ڈالنے كی كوشش كرے گا۔قٰالَ قَرِینُہُ رَبَّنٰا مَا اَطغَیتُہُ وَلٰكِن كٰانَ فِی ضَلاٰلٍ بَعِیدٍ قٰالَ لاٰ تَختَصِمُوا لَدَیَّ وَقَد قَدَّمتُ لَیكُم بِالوَعِیدِمٰا یُبَدَّلُ القَول لَدَیَّ وَمٰااَنَا بِظَلاّٰمٍ لِلعَبِیدِ یَومَ نَقُولُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ امتَلاتِ وَتَقُولُ ہَل مِن مَزِیدٍ اس وقت اس كا ساتھی كہے گا پروردگارا! ہم نے اس كو گمراہ نہیں كیا تھا بلكہ یہ تو خود گمراہی میں بہت دور چلا گیا تھا۔ اس پر خدا فرماۓ گا: ہمارے سامنے جھگڑا نہ كرو میں تو تم كو پہلے ہی عذاب كی خبر دے چكا تھا میرے یہاں بات بدلا نہیں كرتی اورنہ میں بندوں پر ذرّہ برابر ظلم كیا كرتا ہوں۔ اس دن ہم دوزخ سے پوچھیں گے كہ كیا تو بھر چكی ہے تو وہ كہے گی: كیا كچھ اور مل سكتا ہے۔ (سورئہ ق ۵۰ آیت ۲۷ ۳۰)

دوسر ے مقام پر االله رب العزت ان برے احباب كے متعلق (جو اس پر مسلط ہیں اور اسے چاروں طرف سے گھیرے ہوۓ ہیں) اس طرح فرماتا ہے: وَقَیَّضنٰا لَہُم قُرَنٰائَ فَزَیَّنُوا لَہُم مٰا بَینَ اَیدِیہِم وَمٰاخَلَفَہُماو رہم نے ان پر ایسے احباب او رہم نشینوں كو مقرر كیا كہ جنھوں نے جو كچھ ان كے سامنے تھا او رجو كچھ ان كے پیچھے تھا اسے ان كی نظروں میں خوبصورت بناكر پیش كیا تھا۔ (سورئہ فصلت ۴۱ آیت ۲۵)

صحیح ہے كہ پروردگارِعالم نے اس آیت میں برے دوستوں كے ذریعے لوگوں كی گمراہی كا قصور وار خود انہی لوگوں كو قرار دیاہے لیكن اس كے یہ معنی نہیں ہیں كہ خدا نے برے دوستوں كو ان پر زبردستی مسلط كردیا تھا بلكہ خود انھوں نے اپنے ارادے اور اختیار سے برے دوستوں كا انتخاب كیا تھا۔ اسی طرح پروردگارِعالم نے ہمیں یہ اختیار وارادہ دیا ہے كہ ہم برے دوستوں كی جگہ اچھے اور صحیح ددستوں كا انتخاب كریں اور سیدھا راستہ طے كرنے میں ان سے مدد لیں۔

دوست كی آزمائش

حضرت امام صادق ں نے كچھ ایسی علامات بتائ ہیں جن كے ذریعے دوستوں كی آزمائش كی جاسكتی ہے۔مَن غَضَبَ عَلَیكَ مِن خوَانِكَ ثَلاٰثَ مَرّٰاتٍ فَلَم یَقُل فِیكَ شَرّاً فَاتَّخِذہُ لِنَفسِكَ صَدِیقاً

تمہارے بھائوں میں سے جو كوئ تم سے تین مرتبہ ناراض ہو اس كے باوجود تمہارے بارے میں كوئ بری بات نہ كہے تو اسے اپنا دوست بنالو۔ بعض اوقات دوستوں كے درمیان اختلاف اور مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایك دوست ددسرے دوست سے ناراض ہو جاتا ہے لیكن ان میں محبت اسی طرح باقی رہتی ہے اور ایك دوسرے كی برائ نہیں كرتے۔ لہٰذا اگر یہی كیفیت تین مرتبہ پیش آۓ تو اپنے ساتھی كو ایك متوازن شخصیت كا حامل اورودستی كے قابل سمجھو۔ كیونكہ ایسا شخص اخلاقی قواعد كی پابندی كرے گا اوراسے اس كا غصہ تمہارے متعلق برا بھلا كہنے پر آمادہ نہ كر سكے گا۔ایك دوسری حدیث میں حضرت سے وارد ہوا ہے: لٰاتَسَمِّ رَجُلاً صَدِیقاً سِمَۃً مَعرُوفَۃً حَتّیٰ تَختَبِرَہُ بِثَلاٰثٍ فَتَنظُر غَضَبَہُ یَخرُجُہُ مِنَ الحَقِّ اِلیٰ البٰاطِلِ وَعِندَ الدِّینٰارِ وَالدِّرہَمِ وَحَتّیٰ تُسٰافِرَمَعَہُ كسی كو اس وقت تك اپنا جگری دوست نہ كہو اور ایك دوست كی حیثیت سے اسكا تعارف نہ كرائو جب تك تین چیزوں سے اس كا امتحان نہ كرلو۔ دیكھو كہ :

1۔ اس كا غصہ اسے حق سے نكال كر باطل كی طرف تو نہیں لے جاتا۔

2۔ درہم ودینار (روپے پیسے كے معاملے) میں كیسا ہے؟ (خیانت كا مرتكب ہوتا ہے یا تمہارے اموال كو بطور امانت محفوظ ركھتا ہے؟ روپیہ پیسہ اسے تمہاری دوستی سے زیادہ تو عزیز نہیں۔)

3۔ اس كے ساتھ سفر كرو (كیونكہ بعض اوقات سفر كی صعوبتیں انسان كوتعادل اور توازن سے خارج كردیتی ہیں۔ لہٰذا اگر اس موقع پر اس میں توازن باقی رہا تو اس كا مطلب یہ ہے كہ مضبوط اخلاقی اصولوں كی بنیاد پر چلنے والا شخص ہے) ۔



back 1 2 3 4 5 next