کسب روزی



اہم بات یہ ہے کہ وہ آیات و روایات جو روزی کے معین ہونے سے مربوط ہیں وہ حقیقتا لالچی اور دنیا پرست افراد کی فکروں پر لگام ہے ۔کیونکہ وہ اپنی زندگی کے وسائل فراہم کرنے کے لئے سب کچھ کرگزرتے ہیں اور ہرطرح کے ظلم و ستم کے مرتکب ہو جاتے ہیں،اس گمان میں کہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ان کی زندگی کے وسائل فراہم نہیں ہوں گے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ جب انسان بڑا ہو جائے اور طرح طرح Ú©Û’ کام کرنے Ú©ÛŒ طاقت حاصل کرلے تواللہ اس Ú©Ùˆ بھول جائے، کیا عقل اور ایمان اس بات Ú©ÛŒ اجازت دیتے ہیں کہ انسان ایسی حالت میں یہ گمان کرتے ہوئے کہ ممکن ہے کہ اس Ú©ÛŒ روزی فراہم نہ ہو گناہ ،ظلم Ùˆ ستم،دوسروں Ú©Û’ حقوق Ú©ÛŒ پامالی Ú©Û’ میدان میں قدم رکھے ،لالچ میں آکر مستضعفین Ú©Û’ حقوق Ú©Ùˆ غصب کرے ؟البتہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ بعض روزی ایسی ہیں کہ چاہے   انسان ان Ú©Û’ لئے کوشش کرے یا نہ کرے اس Ú©Ùˆ حاصل ہو جاتی ہیں۔

کیا اس بات سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ سورج Ú©ÛŒ روشنی ہماری کوشش Ú©Û’ بغیر ہمارے گھر میں پھیلتی ہے   یا ہوا اور بارش ہماری کوشش Ú©Û’ بغیر ہم Ú©Ùˆ حاصل ہو جاتی ہے ؟کیا اس سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ عقل،ہوش اور استعداد جو روز اول سے ہمارے وجود میں ذخیرہ تھی ہماری کوشش سے نہیں ہے ØŸ

اس کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی چیز کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا مگر اتفاقی طور پر وہ اس کو حاصل ہو جاتی ہے۔ اگرچہ ایسے حادثات ہماری نظر میں اتفاقی ہیں مگر واقعیت یہ ہے کہ خالق کی نظروں میں اس میں ایک حساب ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس طرح کی روزی کا حساب ان روزیوں سے جدا ہے جو کوشش کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہیں۔

لیکن اس طرح Ú©ÛŒ روزی جس Ú©Ùˆ اصطلاح میں ہوامیں اڑ کر آئی ہوئی یا اس سے بھی بہتر تعبیر میں وہ روزی جو کسی محنت Ú©Û’ بغیر ہم Ú©Ùˆ لطف الٰہی سے حاصل ہوتی ہے   ،ا گر اس Ú©ÛŒ صحیح طرح سے حفاظت نہ Ú©ÛŒ جائے   تو وہ   یاہمارے ہاتھوں سے Ù†Ú©Ù„ جائیں Ú¯ÛŒ یا بے اثرہو جائیں گی۔

نہج البلاغہ کے نامہ / ۳۱ میں حضرت علی علیہ السلام کا ایک مشہور قول ہے جو آپ نے اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کو لکھا :فرماتے ہیں کہ ”واعلم یا بنی ان الرزق رزقان ،رزق تطلبہ و رزق یطلبک“ اے میرے بیٹے جان لو کہ رزق کی دوقسمیں ہیں ایک وہ رزق جس کو تم تلاش کرتے ہو اور دوسرا وہ رزق جو تمھیں تلاش کرتا ہے،یہ قول بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔

بہرحال بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اسلام Ú©ÛŒ تمام تعلیمات ہم Ú©Ùˆ یہ بتاتی ہیں کہ اپنی زندگی Ú©Ùˆ بہتر بنانے Ú©Û’ لئے چاہے   وہ مادی زندگی ہویا معنوی ہم Ú©Ùˆ بہت زیادہ محنت کرنی چاہئے اور یہ خیال کرتے ہوئے کہ رزق تو اللہ Ú©ÛŒ طرف سے تقسیم ہوتا ہی ہے ،کام نہ کرنا غلط ہے (تفسیر نمونہ ج/ Û¹ ،ص/ Û²Û° )

2.      یہ حدیث ہم سب طلاب Ú©Ùˆ یہ سبق دیتی ہے کہ اس بات پر ایمان رکھنا چاہئے کہ اللہ اہل علم افراد Ú©ÛŒ روزی کا نبدوبست کرتاہے ۔کیونکہ اگر اہل علم افراد مال جمع کرنے میں Ù„Ú¯ جائیں Ú¯Û’   تو دو بڑے خطروں سے روبرو ہونا Ù¾Ú‘Û’ گا :

الف۔ کیونکہ عوام علماء کے خط (راہ)پر چلتی ہے لہٰذا ان کو دوسروں کے لئے نمونہ ہونا چاہئے اگر عالم دنیا کمانے میں لگ جائیں گے تو پھر یہ دوسروں کے لئے نمونہ نہیں بن سکیں گے ۔

ب۔ وہ مال جو عالموں کے علاوہ دوسرے لوگ جمع کرتے ہیں وہ ومذہب کو نقصان نہیں پہونچاتا لیکن اگر عالم حق اور ناحق کی تمیز کئے بغیر مختلف طریقوں سے مال جمع کریں گے تو یہ مذہب کے لئے نقصان دہ ہوگا ۔واقعا یہ حسرت کاسامان ہے ۔



back 1 2