پانچ نيک صفات



۳ ) ” وقال صدقاً “سچ بولتاہے اس کی زبان جھوٹ سے گندی نہیںہوتی ۔

اوپر بیان کی گئیں تینوں صفات پسندیدہ ہیں مگر چوتھی اور پانچویں صفت کی زیادہ تاکیدکی گئی ہے ۔

۴،۵ ) ” وملک دواعی شہوتہ ولم تملکہ ،وعصیٰ امر نفسہ فلم تملکہ“وہ اپنے شہوانی جذبات پر قابو رکھتا ہے اور ان Ú©Ùˆ اپنے اوپر حاکم نہیں بننے دیتا ۔کیونکہ وہ اپنے نفس Ú©Û’ Ø­Ú©Ù… Ú©ÛŒ پیروی نہیں کرتا اس لئے اس کا نفس اس پر حاکم نہیں ہوتا Û” اہم بات یہ ہے کہ انسان Ú©Ùˆ اپنے نفس Ú©Û’ ہاتھوں اسیر نہیںہونا چاہئے، بلکہ اپنے نفس Ú©Ùˆ قیدی بنا کر اس Ú©ÛŒ لگام اپنے ہاتھوںمیں رکھنی چاہئے ۔اور انسان Ú©ÛŒ تمام اہمیت اس بات میں ہے کہ وہ نفس پر حاکم ہو اس کا اسیر نہ ہو جیسے ،جب وہ غصے میں ہوتاہے تو اس Ú©ÛŒ زبان اس Ú©Û’ اختیار میں رہتی ہے یا نہیں؟یا جب اس Ú©Û’ سینے میں حسد Ú©ÛŒ Ø¢Ú¯ بڑھکتی ہے تو کیا وہ اس Ú©Ùˆ ایمان Ú©ÛŒ طاقت سے خاموش کرسکتا ہے؟خلاصہ یہ ہے کہ انسان ایک ایسے دو راہے پر کھڑاہے جہاں سے ایک راستہ الله اور جنت Ú©ÛŒ طرف جاتاہے او ردوسرا راستہ جس Ú©ÛŒ بہت سی شاخیں ہیں جہنم Ú©ÛŒ طرف جاتاہے۔ البتہ اس بات کا کہنا آسان ہے مگر اس پر عمل کرنا بہت دشوار ہے کبھی کبھی ارباب سیر Ùˆ سلوک (عرفانی   افراد)Ú©Û’ بارے میں کہا جاتا ہے کہ” اس انسان Ù†Û’ بہت کام کیا ہے “یعنی اس Ù†Û’ اپنے نفس سے بہت کشتی Ù„Ú‘ÛŒ ہے اور بار بار گرنے اور اٹھنے Ú©Û’ نتیجہ میں یہ اپنے نفس پر مسلط ہو گیا ہے اور اسے اپنے قبضہ میں کرلیا ہے Û”

نفس پر تسلط قائم کرنے Ú©Û’ لئے ریاض Ú©ÛŒ ضرورت ہے ،قرآن Ú©Û’ مفہوم اور اہل بیت Ú©ÛŒ روایات سے آشنا ہونے Ú©ÛŒ ضرورت ہے۔انسان Ú©Ùˆ چاہئے کہ ہر روزقرآن ،تفسیر وروایات Ú©Ùˆ Ù¾Ú‘Ú¾Û’ اور ان Ú©Ùˆ اچھی طرح ذہن نشین کر Ú©Û’ ان سے طاقت حاصل کرے Û”Ú©Ú†Ú¾ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ”ہم جانتے ہیں کہ یہ کام برہے مگر پتہ نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب ہم اس کام Ú©Û’ قریب پہونچتے ہیں تو ہم اپنے اوپر کنٹرول نہیں کرپاتے “مملوک ہونے Ú©Û’ معنی ہی یہ ہیں کہ جانتا ہے مگر کر نہیں سکتا ،کیونکہ خود مالک نہیں ہے Û”   ان Ú©ÛŒ مثا Ù„ ایسی ہی ہے   جیسے کسی تیزرفتار گاڑی کا ڈارئیور گاڑی Ú©Û’ اچانک کسی ڈھلان پر Ú†Ù„Û’ جانے Ú©Û’ بعدکہے کہ اب گاڑی میرے اختیارسے باہر ہوگئی ہے اور وہ کسی پہاڑ سے ٹکرا کر کھائی میں گر کر تباہ ہو جائے ۔یا کسی ایسے انسان Ú©ÛŒ مانند جس Ú©ÛŒ رفتار پہاڑ Ú©Û’ ڈھلان پر آنے Ú©Û’ بعد بے اختیار تیز ہو جائے،   اگرکوئی چیز اس Ú©Û’ سامنے نہ آئے تو وہ بہت تیزی سے نیچے Ú©ÛŒ طرف آئے گاجب تک کوئی چیز اسے روک نہ لے،لیکن اگر وہ پہاڑی Ú©Û’ دامن تک ایسے ہی   پہونچ جائے تو نیچے پہونچ کر اس Ú©ÛŒ رفتار Ú©Ù… ہو جائے Ú¯ÛŒ اور   وہ   رک جائےگا ØŒ بس نفس بھی اسی طرح ہے۔   یہ کتنی دردناک   بات ہے کہ انسان جانتا ہو مگر کر نہ سکتاہو۔اگر انسان   نہ جاننے Ú©ÛŒ بنا-- پرکوئی گناہ کرے   تو شاید اس Ú©Û’ لئے جواب دہ نہ ہو Û”

یہ سب ہمارے لئے تنبیہ ہے کہ ہم اپنے کاموں Ú©ÛŒ طرف متوجہ ہوں اور اپنے نیک کاموںکو Ø¢Ú¯Û’ بھیجیں ۔لیکن اگر ہم Ù†Û’ کوئی برا کام انجام دیا اور اس Ú©ÛŒ توبہ کئے بغیر اس دنیا سے Ú†Ù„Û’ گئے   تو ہمیں اس Ú©Û’ عذاب Ú©Ùˆ بھی برداشت کرنا Ù¾Ú‘Û’ گا کیونکہ انسان Ú©ÛŒ تکلیف مرنے Ú©Û’ بعد ختم ہو جاتی ہے اورپھر نہ   وہ   توبہ کرسکتاہے اور   نہ   ہی کوئی نیک عمل انجام دے سکتا ہے۔


[1] بحارالانوار،ج/ ۷۴ ص/ ۱۷۹

[2] سورہٴ اسراء آیہ/ ۲۹

[3] سورہٴ فرقان آیہ/ ۶۷



back 1 next