صفات مومن



 ÛŒØ¹Ù†ÛŒ مومن Ú©ÛŒ فکر کبھی جامد وراکد نہیں ہوتی وہ ہمیشہ فکر کرتا رہتا ہے اور نئے مقامات پر پہونچتا رہتا ہے۔ وہ تھوڑے سے علم سے قانع نہیں ہوتا ۔یہاں پر حضرت Ù†Û’ مومن Ú©ÛŒ پہلی صفت فکر Ú©Ùˆ قراردیا ہے جس سے فکر Ú©ÛŒ اہمیت واضع ہو جاتی ہے ۔مومن کا سب سے بہترین عمل تفکر ہے۔ اور یہاں پر ایک بات قابل غور ہے اور وہ یہ کہ ابوذرۻ Ú©ÛŒ بیشتر عبادت تفکر ہی تھی۔اگر ہم کاموں Ú©Û’ نتیجہ Ú©Û’ بارے میں فکر کریں تو ان مشکلات میں مبتلا نہ ہوں جن میں آج گھرے ہوئے ہیں۔

مومن کی دوسری صفت”جوہری الذکر“ہے:

بعض نسخوں میں” جہوری الذکر “بھی آیاہے ۔ہماری نظر میں دونوں ذکر Ú©Ùˆ ظاہر کرنے Ú©Û’ معنی میں ہے۔ذکر Ú©Ùˆ ظاہری طور پر انجام دنیا قصد قربت Ú©Û’ منافی نہیں ہے۔ کیونکہ اسلامی احکام میں ذکر جلی اور ذکر خفی دونوں   موجودہیں۔صدقہ اور زکوٰة مخفی بھی ہے اور ظاہری بھی،ان میں سے ہرایک کااپنا خاص فائدہ ہے جہاں پر ظاہری ہے وہاں تبلیغ ہے اور جہاں پر مخفی ہے وہ اپنا مخصوص اثر رکھتی ہے Û”

مومن کی تیسری صفت” کثیراً علمہ“ ہے ۔

یعنی مومن کے پاس علم زیاد ہوتا ہے۔حدیث میں ہے کہ ثواب،عقل اور علم کے مطابق ہے۔ یعنی ممکن ہے کہ ایک انسان دو رکعت نماز پڑھے اور اس کے مقابل دوسرا انسان سو رکعت نماز پڑھے مگر ان دو رکعت کا ثواب اس سے زیاد ہو ۔واقعیت بھی یہی ہے کہ عباد ت کے لئے ضریب ہے اور عبادت کی اس ضریب کا نام علم وعقل ہے۔

مومن کی چوتھی صفت”عظیماً حلمہ“ ہے

 ÛŒØ¹Ù†ÛŒ مومن کا علم جتنا زیادہ ہوتا ہے اس کا حلم بھی اتنا ہی زیاد ہوتا ہے ۔ایک عالم انسان Ú©Ùˆ سماج میں مختلف لوگوں سے روبرو ہونا پڑتا ہے اگر اس Ú©Û’ پاس حلم نہیں ہوگا تو مشکلات میں گھر جائے گا ۔مثال Ú©Û’ طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام Ú©Û’ حلم Ú©ÛŒ طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔گذشتہ اقوام میں قوم لوط سے زیادہ خراب کوئی قوم نہیں ملتی اور ان کا عذاب بھی سب سے دردناک تھا فلما جاء امرنا جعلنا عٰلیہاسافلہا وامطرنا علیہا حجارة من سجیل منضود [2] اس طرح کہ ان Ú©Û’ شہر اوپر نیچے ہوگئے اور بعد میں ان Ú©Û’ او پر پتھروں Ú©ÛŒ بارش ہوئی۔ان سب Ú©Û’ باوجود جب فرشتے اس قوم پر عذاب نازل کرنے Ú©Û’ لئے آئے تو پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام Ú©ÛŒ خدمت میں پہونچے، اور ان Ú©Ùˆ بیٹے Ú©ÛŒ پیدائش Ú©ÛŒ بشارت دی جس سے وہ   خوش ہوگئے،بعدمیں قوم لوط Ú©ÛŒ شفاعت Ú©ÛŒ Û”<فلما ذہب عن ابراہیم الروع Ùˆ جاتہ البشریٰ یجادلنا فی قوم لوط  Ø§Ù† ابراہیم لحلیم اواة منیب [3] ایسی قوم Ú©ÛŒ شفاعت Ú©Û’ لئے انسان Ú©Ùˆ بہت زیادہ حلم Ú©ÛŒ ضرورت ہے یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام Ú©ÛŒ بزرگی ،حلم اور ان Ú©Û’ وسیع القلب ہونے Ú©ÛŒ نشانی ہے۔بس عالم Ú©Ùˆ چاہئے کہ اپنے حلم Ú©Ùˆ بڑھائے اور جہاں تک ہو سکے اصلاح کرے نہ یہ کہ اس Ú©Ùˆ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دے۔

مومن کی پانچوین صفت”جمیل المنازعة“ہے

 ÛŒØ¹Ù†ÛŒ اگرمومن Ú©Ùˆ کسی Ú©Û’ کوئی بحث یا بات چیت کرنی ہوتی ہے تو اس Ú©Ùˆ نرم لب Ùˆ لہجہ میں انجام   دیتا ہے اورجنگ Ùˆ جدال نہیں کرتا ۔آج ہمارے سماج Ú©ÛŒ حالت بہت حسا س ہے ،خطرہ ہم سے صرف دو قدم Ú©Û’ فاصلے پر ہے۔ان حالات میں عقل کیا کہتی ہے؟کیا عقل یہ کہتی ہے ہم کسی بھی موضوع Ú©Ùˆ بہانہ بنا کرجنگ Ú©Û’ ایک جدید محاذ Ú©ÛŒ بنیاد ڈال دیں،یا یہ کہ یہ وقت آپس میں متحد ہونے اور ایک دوسرے Ú©ÛŒ مدد کرنے کا وقت ہے؟

جب ہم خبروں پر غور کرتے ہیںتو سنتے ہیں کہ ایک طرف تو تحقیقی وفد عراق میں تحقیق میں مشغول ہے دوسر طرف امریکہ Ù†Û’ اپنے آپ Ú©Ùˆ حملہ Ú©Û’ لئے تیارکرلیا ہے اور عراق Ú©Û’ چاروں طرف   اپنے جال Ú©Ùˆ پھیلا کر حملہ Ú©ÛŒ تاریخ معین کردی ہے۔دوسری خبر یہ ہے کہ جنایت کار اسرائیلی حکومت کا ایک ذمہ دار آدمی کہہ رہا ہے کہ ہمیں تین مرکزوں (مکہ ،مدینہ،قم)Ú©Ùˆ ایٹم بم Ú©Û’ ذریعہ تہس نہس کردینا چاہئے۔کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ بات واقعیت رکھتی ہو؟ایک دیگر خبر یہ ہے کہ امریکیوں کا ارادہ یہ ہے کہ عراق میں داخل ہونے Ú©Û’ بعد وہاں پر، اپنے   ایک فوجی افسر Ú©Ùˆ تعین کریں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ہم پر مسلط ہو گئے تو کسی بھی گروہ پر رحم نہیں کریں Ú¯Û’ اور نہ ہی کسی گروہ Ú©Ùˆ کوئی حصہ دیںگے۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ جب ہمارے   یہاںمجلس میں کوئی ٹکراوپیدا ہو جاتا ہے یا اسٹوڈنٹس کا کوئی گروہ جلسہ کرتا ہے   تو دشمن کامیڈیا ایسے معاملات Ú©ÛŒ تشویق کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے۔کیا یہ سب Ú©Ú†Ú¾ ہمارے بیدار ہو Ù†Û’ Ú©Û’ لئے کافی نہیں ہے؟کیا آج کا دن <اعتصموا بحبل الله جمیعاً ولا تفرقوا وروز وحد ت ملی نہیں ہے؟عقل کیا کہتی ہے؟اے مصنفوں،مئلفوں،عہدہ داروں،مجلس Ú©Û’ نمائندوں،اور دانشمندوں ! خداکے لئے بیدار ہو جاؤ کیا عقل اس بات Ú©ÛŒ اجازت دیتی ہے کہ ہم کسی بھی موضوع Ú©Ùˆ بہانہ بنا کر جلسہ کریں اور ان Ú©Ùˆ یونیورسٹی سے Ù„Û’ کر مجلس تک اور دیگر   مقامات پر اس طرح پھیلائیں کہ دشمن اس سے غلط فائدہ اٹھائے؟میں چاہتا ہوں کہ اگر کوئی اعتراض بھی ہے تو ا س Ú©Ùˆ ”جمیل المنازعة“ Ú©ÛŒ صورت میں بیان کرنا چاہئے کیونکہ یہ مومن Ú©ÛŒ صفت ہے۔ہمیں چاہئے Ú© قانون Ú©Ùˆ اپنا معیار بنائیں او روحدت Ú©Û’ معیاروںکو باقی رکھیں۔

اکثر لوگ متدین ہیں ،جب ماہ رمضان یا محرم آتا ہے تو پورے ملک کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو دین سے محبت ہے۔آگے بڑھو اور دین کے نام پر جمع ہو جاؤ اور اس سے فائدہ اٹھاؤ وحدت ایک زبردست طاقت اور سرمایہ ہے ۔


[1] بحار الانوار ،ج/ ۶۴ باب علامات المومن،حدیث/ ۴۵ ،ص/ ۳۱۰

[2] سورہٴ ہود:آیہ/ ۸۲

[3] سورہٴ ہود:آیہ/ ۷۴ و ۷۵



back 1 2