غيبت



يہ بات ياد رکھئے کہ تکرار عمل اور ضعف تعقل کى وجہ سے انسان کا کام اس منزل تک پھونچ جاتا ھے کہ اس کے نقصانات کى طرف متوجہ ھو جانے کے بعد بھى اپني نفسانى خواھش سے صرف نظر نھيں کر سکتا ۔ کيونکہ بشر اگر چہ ايک حد تک حقائق کى طرف متوجہ ھوتا ھے اور اپنى فطرت کے مطابق جو يائے کمال رھتا ھے ليکن عمل سے مسلسل گريز اں رھتا ھے اور حصول سعادت کے لئے معمولى سا رنج و غم برداشت کرنے پر تيار نھيں ھوتاا سى لئے اپنى پست فطرتى کا محکوم ھوتا ھے ۔

جو لوگ اپنى اور دوسروں کى شرافت کى حفاظت کے پابند نھيں ھوتے وہ کسي بھى اخلاقى آئين کے پابند بھى نھيں ھوتے بلکہ ان کا اخلاقى آئين کى پابندى قبول کر لينا امر محال ھے اور جن لوگوں نے حيات کو اپنى شھوتوں کا ميدان قرار دے ليا ھے اور دوسروں کے حقوق کو پامال کرتے رھتے ھيں بد بختى و بد نصيبى ان کا مقدر بن جاتى ھے ۔

ضعف اخلاق ضعف ايمان ھى سے پيدا ھوتا ھے کيونکہ ضعف اخلاق مکمل طريقہ سے ضعف عقيدہ سے تعلق رکھتا ھے کيونکہ اگر انسان قوت ايمان نہ رکھتا ھو گا تو پھر کوئى بھى چيز نہ اس کو کسب فضيلت پر آمادہ کر سکتى ھے اور نہ وہ اخلاقى پابنديوں ميں اپنے کو جکڑ سکتا ھے ۔

لوگوں کو ضلالت و اخلاقى مفاسد سے نکالنے کے لئے اپنے اپنے سليقہ و استعداد کے مطابق الگ الگ رائے ھوتى ھے ليکن ( ميرى نظر ميں ) موٴ ثر ترين طريقہ يہ ھے کہ موجبات اصلاح خود لوگوں کے اندر پيدا ھو جائيں ۔ اور اسکے لئے نيک جذبات کو بيدار کرنا، فطرت کى آواز پر لبيک کھنا اور فکري ذخيرہ وں کو راہ حصول سعادت ميں صرف کرنا ھے ۔ اس لئے کہ صفات ذميمہ کے برے انجام کو سوچ کر اور ارادہ کو مضبوط بنا کر ھم اخلاقي رذائل پر کنٹرول حاصل کر سکتے ھيں اور اپنے نفسوں پر سے تاريکي کے پردوں کو ھٹا کر ان کى جگہ بلند صفات کو دے سکتے ھيں ۔

ڈاکٹر ژاگو اپني کتاب ” قدرت و ارادہ “ ميں کھتا ھے : ھم نا پسنديدہ صفات کے برے انجام کو سوچ کر اور اس عادت کے ترک کرنے کے بعد جو مصالح و منافع ھم کو حاصل ھوں گے ان ميں غور کرنے پر اور پھر زندگى کے ان مختلف مواقع کو سامنے لا کرجن ميں ھم اس عادت کى قربانگاہ پر بھينٹ چڑھ چکے ھيں برے صفات کا مقابلہ کر سکتے ھيں اور پھر جب چند بار اپنے اندر ان نتائج کا مشاھدہ کريں گے اور اس کے ترک کر دينے کى لذت کو محسوس کريں گے تو وسوے ھم سے دور ھو جائيں گے !!

چونکہ وجود بشر ميں استعداد کمالات کى بذر افشانى کى جا چکى ھے اورمملکت جسم کو تمام دفاعى وسائل سے مجھز کيا جا چکا ھے اس لئے پھلے اس گمراھى وضلال کے منشاء کو تلاش کيا جائے اس کے بعد ناقابل تزلزل ارادہ سے اس کو لوح دل سے محو و معدوم کر ديا جائے اور اپنى غير متناھى خواھشات کے سامنے مضبوط باندہ بناديا جائے ۔

چونکہ انسان کے اعمال اس کى واقعيت و شرف کے مظاھر ھوا کرتے ھيں ۔ اس لئے کہ انھيں افعال سے ھر انسان کى واقعى شخصيت ظاھر ھوتي ھے اس لئے اگر انسان حصول سعادت کرنا چاھتا ھے تو اس کا فريضہ ھے کہ اپنے اعمال کا تزکيہ کرے اور خدا کو اپنے اعمال کا نگراں تسليم کرے اور آخرت کے جزا سے خائف ھو ، کتاب الٰھى پر عقيدہ رکھے کہ وہ ھر چھوٹے بڑے گناہ کا احصار کرنے والى ھے ۔

ايک فلسفي کھتا ھے : کائنات کو بے عقل ،مردہ اور بے شعور نہ کھو کيونکہ ايسا کھنے پر بے عقلى کى نسبت تم نے خود اپنى طرف دى ھے ۔ کيونکہ تم بھى اسى کائنات سے ظاھر ھوئے ھو ۔ پس اگر کائنات ميں عقل و حس نھيں ھے تو خود تمھارے اندر بھى نھيں ھو گى ۔

جس قدر معاشرہ بقائے حيات کے لئے زندگى کے لوازم اوليہ کا محتاج ھے اسى قدر معاشرہ روحانى روابط کے بر قراررھنے کا محتاج ھے ۔ اگر لوگ اپنے سنگين اجتماى وظيفہ پر عمل پيرا ھو جائيں تو اپنے تکامل کے لئے معنويات سے بھت بڑا فائدہ اٹھا سکتے ھيں۔ ھمارا فريضہ ھے کہ نقصان دہ افکار کى جگہ اچھے افکار کو اپنے اندر تقويت بخشيں تاکہ ھمارى روح تاريکيوں کي قيد و بند سے آزاد ھو سکے اور ھم اپنى زبان کو غيبت سے محفوظ رکہ کر جاوداں مقصد سعادت کى طرف پھلا قدم اٹھا سکيں اسي طرح ھمارا فريضہ ھے کہ معاشرے ميں بڑھتے ھوئے اخلاقى مفاسد کا مقابلہ کرنے کے لئے لوگوں ميں ايک روحانى انقلاب پيدا کريں اور اپنے ھم نوع افراد کے حقوق کے احترام کى روح کو زندہ کر کے اصول انسانيت و معنوى بنيادوں کو استوار کريںاور حتى المقدور کوشش کريں کہ جن اخلاقى بنيادوں پر معاشرے کى بقاء موقوف ھوتى ھے ان کے استحکام کے لئے اساسى قدم اٹھائيں ۔ اگر لوگوں کے اندر ايک روحانى انقلاب پيدا ھو جائے تو يقينى طور سے حقائق کے قبول کرنے کى صلاحيت بھى لوگوں ميں قوى ھو جائے گى اور پھر اس کا نتيجہ يہ ھو گا کہ اجتماعى و اخلاقى اصولوں کى مکمل طور سے رعايت ھو سکے گى ۔

دين کى فاسد اخلاق سے جنگ

قرآن مجيد ايک مختصر اور رسا ترين جملہ ميں بھت ھى دلچسپ انداز سے غيبت کى حقيقت کو بيان کرتا ھے ” ايحب احدکم ان ياکل لحم اخيہ ميتا “ ( ۱)



back 1 2 3 next