غيبت



”کيا تم ميں سے کوئى اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ھوئے بھائى کا گوشت کھائے “

مذھبى رھنماؤں نے جس طرح شرک و بيدينى کا مقابلہ کيا ھے اسى طرح اندرونى صفات کى اصلاح کى طرف بھت زيادہ توجہ دى ھے ۔حضور سرورکائنات صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم فرماتے ھيں : مجھے اس لئے نبى بنا کر بھيجا گيا ھے تاکہ مکارم اخلاق کو منزل کمال تک پھونچا دوں ، اسى لئے آپ نے بڑى متين منطق اور سعادت بخش پروگرام کے ذريعہ لوگوں کى رھبرى فرمائى ھے اور حدود فضيلت سے باھر جانے کو جرم قرار ديا ھے اور بڑي سختى کے ساتھ اس سے روکا ھے ۔ نہ صرف غيبت کا سننا اور غيبت کرنا گناہ ھے بلکہ شارع اسلام نے شخص غائب کى حيثيت کا دفاع کرنا بھى ھر مسلما ن کا فريضہ قرار ديا ھے ۔ چنانچہ ارشاد رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم ھے : اگر کسى مجمع ميں کسى شخص کي غيبت کى جائے تو تمھارا فريضہ ھے کہ جس کى غيبت کى جا رھى ھے اس کا دفاع کرو اور لوگوں کو اس کى غيبت سے روکو اور وھاں سے اٹھ کر چلے جا وٴ ۔ (۲)

دوسرى جگہ ارشاد فرماتے ھيں : جو شخص اپنے برادر مومن کى غيبت کا دفاع کرے اللہ پر اس کا حق ھے کہ اس کے جسم کو جھنم سے بچائے ۔ ( ۳)

جو شخص بھى اپنے برادر مومن کى عدم موجودگى ميں اس کى آبرو کا دفاع کرتا ھے خدا اس کو عذاب جھنم سے بچا ليتا ھے ، آنحضرت صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم فرماتے ھيں : جو شخص کسى مسلمان کى غيبت کرتا ھے خدا چاليس دن تک اس کى نماز اور اس کے روزے کو قبول نھيں کرتا ۔ ھاں جس کى غيبت کي گئى ھے اگر وہ معاف کر دے تب قبول کر ليتا ھے ، ايک اور جگہ ارشاد فرماتے ھيں : جو شخص کسى مسلمان کى ماہ رمضان ميں غيبت کرتا ھے خدا اس کے روزے کے اجر کو ختم کر ديتا ھے ۔ ( ۴)

پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم واقعى مسلمان کى پھچان بتاتے ھوئے فرماتے ھيں : وھى شخص مسلمان ھے جس کى زبان اور جس کے ھاتہ سے تمام مسلمان محفوظ رھيں ۔بھت ھى واضح سى بات ھے کہ غيبت کرنے والا حصار فضيلت سے باھر ھو جاتا ھے ۔ اور اپنے کو انسانيت کى نگاہ ميں ذليل کر ليتا ھے مسلمانوں کا اجماع ھے کہ غيبت گناہ کبيرہ ھے کيونکہ غيبت کرنے والا علاوہ اس کے کہ دستور الٰھى کى مخالفت کرتا ھے وہ حق خدا کى بھى رعايت نھيں کرتا ھے اور حقوق مردم پر تعدي کرتا ھے ۔

جس طرح مردہ جسم اپنا دفاع نھيں کر سکتا اور نہ اپنے بدن پر ھونے والے ظلم کو روک سکتا ھے بالکل اسى طرح شخص غائب اپنى آبرو کى حفاظت نھيں کر سکتا اور نہ اس کا دفاع کر سکتا ھے جس طرح مسلمان جان کى حفاظت ضرورى ھے اسى طرح اس کے آبرو کى بھى حفاظت ضرورى ھے ۔

غيبت و بد گوئى کى علت روحانى دباؤ اور رنج و غم ھوتا ھے ۔ حضرت على عليہ السلام فرماتے ھيں : کمزور و ناتوان شخص کي انتھائى کوشش غيبت کرنا ھے ۔ ( ۵)

ڈاکٹر ھيلن شاختر کھتا ھے : انسان کى جو بھى حاجت پورى نھيں ھوتى وہ رنج و الم کا سبب بن جاتى ھے ۔ اور ھر رنج و غم ھم کو اس کے دفاع و تدبير پر آمادہ کرتا ھے ۔ ليکن الم و تکليف کے دور کرنے کا طريقہ ھر شخص کا ايک جيسا نھيں ھوتا ۔ جب انسان دوسروں کو ديکھتا ھے کہ وہ اس کى طرف اس طرح متوجہ نھيں ھوتے جس طرح وہ چاھتا ھے تو وہ گوشہ نشين ھو جاتا ھے ۔ اور اس خوف سے کہ کھيں لوگوں کے درميان اس کى ذلت و رسوائى نہ ھو جائے وہ ملنے جلنے پر تنھائى اور گوشہ نشينى کو ترجيح ديتا ھے ۔ اور اگر لوگوں کے درميان بيٹھتا بھى ھے تو مضطرب ، پريشان خوفزدہ ھو کر ايک کنارے ميں بيٹھتا ھے اور ايک کلمہ بھى نھيں کھتا اورخاموش و ساکت بيٹھا رھتا ھے اور پھر اپنے احساس کمترى کو دور کرنے کے لئے دوسروں سے مسخرہ پن کرتا ھے اور بے جا قھقھے لگاتا ھے ۔ اور يا غير موجود لوگوں کي بدگوئى کرتا ھے ۔ يا موجود ہ لوگوں سے جھگڑنے لگتا ھے ۔ اور يا دوسروں پر اعتراض کرنے لگتا ھے ۔ ان تمام طريقوں ميں سے کسى ايک طريقے کو اپنا کر لوگوں کو اپنى طرف متوجہ کرنے کى کوشش کرتا ھے ۔ ( ۶)

ڈاکٹر مان اپنى کتاب ” اصول علم نفس “ ميں کھتا ھے : اپنى شکست کا جبران کرنے کے لئے اور اپنے عيوب کى پردہ پوشى کے لئے انسان کبھى اپنے گنا ہ کو دوسروں کے سر منڈہ ديتا ھے اور اس طرح اپنى ذات کے احترام کو اپني نظر ميں محفوظ کر ليتا ھے ۔ اور اگر امتحان ميں فيل ھو گيا تو کبھى معلم کو اور کبھى امتحانى سوالات کي ملامت کرتا ھے ۔ اور اگر وہ اپنے حسب منشاء مقام و عھدہ نھيں پاتا تو کبھى اس عھدے کى برائى کرتا ھے ۔ اور کبھى اس شخص کى جو اس عھدے پر فائز ھے ۔ اس کى ملامت کرتا ھے ۔ اور کبھى اپنى شکست کى پورى ذمہ دارى ايسے دوسرے لوگوں کے سر ڈال ديتا ھے ، جن کا اس سے کوئى واسطہ بھي نھيں ھوتا ۔

ان چيزوں سے يہ نتيجہ نکلتا ھے کہ خود ھمارا فريضہ ھے کہ ايک روحانى جھاد کر کے خلوص نيت کے ساتھ اپنے بلند جذبات کو تقويت پھونچائيں اور سب سے پھلے اپنے نفس کى اصلاح و تھذيب کي کوشش کريں تاکہ نيک بختى کى سر زمين پر قدم جما سکيں اور اپنے معاشرے کى ھر پھلو سے اصلاح کر سکيں ۔

حوالے

۱۔حجرات آيت ۱۲

۲۔نھج الفصاحة ص ۴۸

۳۔نھج الفصاحة ص ۶۱۳

۴۔بحار الانوار ج ۱۶ ص ۱۷۹

۵۔غرر الحکم ص ۳۶

۶۔رشد شخصيت



back 1 2 3