تجسس و عيب جوئى



انسان کى شرافت و بزرگى خود اس کے ھاتہ ميں ھے جو شخص دوسروں کى شخصيت کو مجروح کرے گا اس کى شخصيت بھى قھرى طور سے مجروح ھو جائے گى ۔

يہ ممکن ھے کہ عيب جو اپنے عمل کے نتيجہ سے بے توجہ ھو ليکن وہ بھرحال اپنے اس عمل کى وجہ سے لوگوں کى بد گوئى سے محفوظ نھيں رہ سکتا کيونکہ عيب جو اپنى اس حرکت کى وجہ سے لوگوں کے دلوں ميں حسد کينہ بغض کا جو بيج بو چکا ھے اس کا بھگتان اسے بھگتناھى ھو گا ۔ اور اس کو اپنے اس فعل کے نتيجہ ميں ندامت و پشيمانى کے علاوہ کچھ ھاتہ نھيں آئے گا ۔ اس لئے کہ عيب جو بقول بزرگان ، کبوتر کى طرح نھيں ھے کہ اگر آشيانہ سے اڑ جائے تب بھى دوبارہ واپسى کي اميد منقطع نھيں ھوتى ۔

جو شخص لوگوں کے ساتھ زندگى بسر کرنا چاھتا ھے اس کى ذمہ دارى ھے کہ اپنے فرائض پر عمل کرے يعنى ھميشہ لوگوں کى خوبيوں پر نظر رکھے ، ان کے نيک اعمال کو اپنے ذھن ميں رکھے اور ان کے اچھے اخلاق و اچھے کردار کى قدر دانى کرے ۔ جن عادتوں يا صفتوں سے دوسروں کى شخصيت مجروح ھوتى ھو اور جو باتيں اصول کى مخالف ھوں ان سے اجتناب کرے ۔ کيونکہ محبت کو دوام محبت ھى سے ملتا ھے اور بقائے احترام طرفين سے ھوا کرتا ھے ۔پس جو شخص اپنے دستوں کے عيوب پر پردہ ڈالنے کا عادى ھو گا اس کى محبت باقى رھے گى اور اس کى محبت کو دوام حاصل ھو گا ۔ لھذا اگر کسي دوست ميں کوئى کمزورى ديکھو تو اس کے پيٹھ پيچھے اس کى برائى بيان کرنے کے بجائے کسى مناسب موقع پر اس کو اس بات کى طرف بھت خوش اسلوبى سے متوجہ کر دو ۔

يہ بات بھي قابل توجہ ھے کہ اگر دوست کى کسى کمى پر اس کو متوجہ کرنا ھے تو اس ميں بھى بڑى مھارت کى ضرورت ھے اس کو ايسي خوش اسلوبى سے متوجہ کيجئے کہ اس کو تکليف نہ پھونچے اس کے احساسات و جذبات کو ٹھيس نہ لگے ۔ ايک مربى اخلاق کا کھنا ھے : تمھارے لئے يہ ممکن ھے کہ اپنے مخاطب ( دوست ) کو اشارے يا کسى ، حرکت کے ذريعے اس کى غلطى پر متوجہ کردو، اس سے گفتگو کرنے کى ضرورت نھيں ھے ۔ کيونکہ اگر تم نے اپنے دوست سے يہ کھہ ديا کہ تمھارے اندر يہ کمى ھے تو کسى قيمت پر تم اس کو اپنا ھم عقيدہ نھيں بنا سکتے کيونکہ تم نے ڈائريکٹ يہ بات کھہ کر اس کى عقل و فکر پر حملہ کيا ھے اس کى خود پسندى کو مجروح کيا ھے ۔ آپ کے اس طريقھٴ کار سے وہ اپنى ضد پر اڑ جائے گا ۔ اور اپنے عمل ميں کوئى تغير نھيں کرے گا ۔ آپ چاھے افلاطون و ارسطو کى سارى منطق اس پر صرف کر ديں ليکن اس کا باطنى عيقدہ نھيں بدل پائيں گے ، کيونکہ آپ نے اس کے پندار کو زخمى کر ديا ھے ۔ گفتگو کرتے وقت کسى صورت ميں اس سے اس طرح گفتگو کى ابتداء نہ کيجئے : ميں آپ کى غلطى کو ثابت کردوں گا ميرے پاس اس کے لئے مضبوط دليليں ھيں ! کيونکہ اس قسم کى گفتگو کا مفھوم يہ ھے کہ آپ اس سے زيادہ عقلمند ھيں ۔ لوگوں کے افکار کى اصلاح عام حالات ميں دشوار ھوتى ھے ، چہ جائيکہ جب اس کے سامنے بند باندہ ديا جائے۔ اگر کسى نکتہ کو ثابت ھى کرنا چاھتے ھوں تو پھلى بات يہ ھے کہ اس پر کسى کو مطلع نہ کيجئے اور اتنى ھوشيارى و مھارت سے اس کام کو انجام ديجئے کہ کوئى سوچ بھى نہ سکے کہ آپ کا مقصد کيا ھے اس سلسلہ ميں شاعر کى اس نصيحت پر عمل کيجئے ” لوگوںکو اس طرح تعليم دو کہ کوئى تم کو معلم نہ سمجھے “۔

مذھبى تعليم کى تحقيق

قرآن مجيد عيب جو حضرات کوبرے انجام سے ڈراتے ھوئے ان کى اس برى عادت کا نتيجہ بتاتا ھے ؛” ويل لکل ھمزة لمزة “ (۱ ) ھر طعنہ دينے والے چغلخور کے لئے ويل ھے ۔

اسلام نے معاشرہ کى وحدت کى حفاظت کے لئے زندگى کے اندر اصول ادب کي رعايت کو ضرورى قرار ديا ھے اور عيب جوئى جو تفرقہ کا سبب اور دوستانہ روابط کے قطع کرنے کى علت ھے ، کو حرام قرار ديا ھے ۔ مسلمانوں کا فريضہ ھے کہ ايک دوسرے کے احترام کو باقى رکھيں ! اور کسى کى اھانت نہ کريں ! امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ھيں : ايک مومن کو دوسرے مومن سے اس طرح سکون ملتا ھے جس طرح پياسے کو ٹھنڈے پانى سے سکون ملتا ھے ۔ ( ۲)

امام محمد باقر عليہ السلام فرماتے Ú¾ÙŠÚº : ايک انسان Ú©Û’ اخلاقى عيب Ú©Û’ اثبات Ú©Û’  لئے ÙŠÚ¾Ù‰ بات کافى Ú¾Û’ کہ وہ دوسروں Ú©Û’ جس عيب Ú©Ùˆ ديکھتا Ú¾Û’ اسى عيب Ú©Ùˆ اپنے يھاں Ù†Ú¾ÙŠÚº ديکہ پاتا Û” يا يہ کہ دوسروں Ú©Ùˆ جس کام پر سر زنش کرتا Ú¾Û’ ÙˆÚ¾ÙŠ کام خود بھى کرتا Ú¾Û’ يا اپنے دوست Ú©Ùˆ لا يعنى باتوں سے آزار پھونچاتا Ú¾Û’ Û” ( Û³)

حضرت علي عليہ السلام فرماتے ھيں : خبر دار ! لوگوں کے عيوب تلاش کرنے والوں کى صحبت سے پرھيز کرو کيونکہ ان لوگوں کا ھم نشين بھى ان کى عيب جوئى سے نھيں بچ سکے گا ۔ ( ۴)

اس سلسلہ ميں حضرت على عليہ السلام نے بھت اچھى بات فرمائى ھے : تمھارے نزديک سب سے بر گزيدہ ترين اس شخص کو ھونا چاھئے جو تم کو تمھارے نقص و عيب کى طرف متوجہ کرے اور تمھارى روح و جان کى مدد کرے ۔

ويل کارنگي کھتا ھے : ھميں اور آپ کو بڑى خوشى کے ساتھ اپنے خلاف ھونے والے نقد و تبصروں کو قبول کر لينا چاھئے ۔ کيونکہ ھم اس سے زيادہ کى توقع نھيں کر سکتے کہ ھمارے اعمال و افکار کا ۳/۴ حصہ صحيح و درست ھو ۔ حد يہ ھے کہ عصر حاضر کا عميق ترين مفکر” آنسٹائن “بھى اس بات کا معترف ھے کہ اس کے سو ميں ننانوے استنتاجات مبنى بر اشتباہ تھے ۔ جس وقت بھى کوئى دشمن ھم پر نقد و تبصرہ کرتا ھے اگر ھم متوجہ نہ ھو ں تو بغير يہ جانے ھوئے کہ ھمارا مخاطب ھم سے کيا کھنا چاھتا ھے خود بخود ھمارے اندر دفاع کي حالت پيدا ھو جاتى ھے ۔ ھم ميں سے ھر شخص اپنے اوپر نقد و تبصرہ سن کر چيں بہ جبيں ھو جاتا ھے اور تعريف و تحسين سے خوشحال ھو جاتا ھے بغير يہ سوچے ھوئے کہ ھمارى جو تنقيد يا تحسين کى جار ھى ھے وہ غلط ھے يا صحيح ؟



back 1 2 3 4 next