ظلم و ستم



Ú¾Ù‰ السبيل فمن يوم الى يوم     کانّہ ما تراک العين فى نوم

لا تجز عنّ رويدا انھا دول     دنيا   تنقل  من  قوم  اليٰ  قوم

” دنيا ايک گزر گاہ ھے جس کو روازنہ چل کر ختم کيا جاتا ھے يہ دنيا خواب کے مانند ھے رنجيدہ و غمگين نہ ھو آرام سے رھو ۔ يہ دنيا تو ايسا سرمايہ ھے جو ھر روز دوسروں کے ھاتھوں ميں منتقل ھوتى رھتى ھے “۔

متوکل نے جب ان شعروں کو پڑھا تو فوراً ا س کى آزادى کا حکم ديديا ليکن اس ميں دير ھو چکى تھى محمد بن عبد الملک تڑپ کر جان دے چکا تھا ۔

جي ھاں جو لوگ دنيا کو تنازع للبقاء کا ميدان سمجھتے ھيں وہ ھميشہ اپنى شان و شوکت کو برقرار رکھنے کے لئے کمزوروں پر ظلم کرتے رھتے ھيں اور کسى بھى جرم کے ارتکاب سے دريغ نھيں کرتے ليکن ان کو بھت زيادہ مھلت نھيں ملتى مظلوموں کے سينوںسے نکلنے والى آہ ان کے خرمن ھستى کو جلا کر خاک کر ديتى ھے اور ايک خونيں انقلاب کا پيش خيمہ ثابت ھوتى ھے ۔

ظالم کسى خاص طبقہ يا کسى خاص فرد سے مخصوص نھيں ھے ۔ اگر کوئى شخص بغير کسى قيد و بند کے زندگى کي نعمتوں سے لطف اندوز ھونا چا ھے اور قوانين کے دائرے سے باھر قدم رکہ دے ۔ تو وہ ظالم و ستمگار ھے ۔

افسوس آج کل معاشرے کے اندر ظلم و ستم قوس صعودى کو طے کر رھا ھے ۔ ظلم کے شعلے معاشرے کے خرمن ھستى کو پھونکے دے رھے ھيں ۔ تمدن بشرى کى بنيادوں کو کھو دے ڈال رھے ھيں ۔ ظالم و ستمگر اپنى طاقت بھر معاشرھٴ بشرى کے حقوق کو پامال کر رھے ھيں ۔ لوگوں کے بے پناہ منابع ثروت کو لوٹے لے رھے ھيں ۔ فرشتھٴ عدالت ايک بے جان مجسمہ بن کر رہ گيا ھے ۔

دين کا ظلم سے مقابلہ

قرآن مجيد ستمگاروں Ú©Û’ انجام کا اعلان کرتے ھوئے کھتا Ú¾Û’ :” Ùˆ تلک القريٰ اھلکنا Ú¾Ù… لما ظلموا Ùˆ جعلنا لمھلکھم موعدا “  (Û± )

اور ان بستيوں کو ( جن کو تم ديکھتے ھو ) جب ان لوگوں نے سر کشي کى تو ھم نے ھلاک کر ديا اور ھم نے ان کى ھلاکت کا وقت معين کر ديا تھا ۔

رھبران دين معاشرہ کى پائدارى سے بھت زيادہ دلچسپى رکھتے تھے ۔ عدل و انصاف کى وسعت کے لئے دل سے خواھاں تھے اور يھى ان کا اصلى مقصد تھا ، انھيں حضرات نے معاشرے ميں ظلم و ستم کے مقابلے ميں قيام کرنے کى ھمت پيدا کى ۔ظالموں کى کمين گاھوں کو مسخر کر ليا ، ان کي وحشيانہ طاقتوں کو شکست ديدى ۔ ظلم کو ناقابل عفو قرار ديديا اور لوگوں کو اس کے قريب جانے سے اتنا روک ديا کہ شرک کو بھى ايک قسم کا ظلم قرار ديديا ۔



back 1 2 3 4 next