انسانى علم و عمل کى خصوصيت



علم کے معنى اگر بس جاننے کے ھيں اور يھى اس دور ميں معيار علم سمجھا جاتا ھے دنيا کے ممالک کى وسعتيں اور مردم شمارياں جان ليںـ پھاڑوں کى اونچائياں اور درياؤں کى گھرائياں جان ليںـ سياروں کے فاصلے زمين سے اور ان کى پيمائش معلوم کر ليں نباتات کے خواص او رپتھروں کى کيفيات معلوم کر ليںـ

اگر يھى علم بمعنى ”دانستن“ انسان کا خاص جوھر ھے تو کون کھتا ھے کہ حيوان علم سے بے بھرہ ھےـ حيوان بھى بھت کچھ جانتا ھے اپنے رھنے کى جگہ کو جانتا ھے اپنے کھانے کى غذا کو جانتا ھےـ اپنے غذا دينے والے کو پھچانتا ھےـ اپنے حفظان صحت کے اصول جانتا ھےـ اسى لئے جنگل ميں کوئى جانور بيمار نھيں پڑتاـ بے شک انسانوں کے غيرطبعى ماحول ميں آ کر وہ بيمار پڑنے لگتا ھےـ اسى طرح اگر عمل کے معنى بس کچھ نہ کچھ کام کرنے کے ھيں تو حيوان بھى عمل سے خالى نھيں ھےـ وہ بقدر امکان اپنى غذا کے حصول کے ذرائع مھيا کرتا ھے جو ا س کے مقصد ميں سدراہ ھو اسے دفع کرتا ھے اور اپنے حريف سے بقدر امکان مقابلہ کرتا ھےـ

پھر آخر وہ علم اور عمل جو انسان سے مخصوص ھے کيا ھےـ؟

ھم جھاں تک سمجھ سکے ھيں علم کے شعبہ ميں انسان کا امتياز خصوصى دو باتوں سے ھےـ ايک يہ کہ حيوان کا علم محسوسات کے دائرہ ميں اسير ھے پھلے جو ميں نے کھا کہ وہ اپنے غذا دينے والے کو پھچانتا ھے يہ پورے طور پر درست نھيں ھے حقيقت ميں وہ پھچانتا ھے جس کے ھاتہ سے غذا پاتا ھے جو اصل غذا کا دينے والا ھے اگر اس کے سامنے نھيں آتا اور انپے ھاتہ سے غذا نھيں ديتا تو وہ اسے نھيں پھچانے گاـ اب اگر انسان کا علم بھى ايسا ھو کہ جس رئيس سے ملا اسى کو ولى نعمت جان لياـ جس نے تنخواہ دى اسى کو خدا سمجھ ليا تو پھر حيوان اور انسان ميں کوئى فرق نھيںـ

انسان کى خصوصيت يہ ھے کہ وہ عالم احساس و مشاھدہ کے ماوراء اپنى عقل کى مدد سے کچھ حقيقتوں کا پتا لگاتا اور ان کا تيقن کرتا ھے اور وھى ايمان بالغيب کا سرچشمہ ھوتا ھےـ

دوسرى بات يہ ھے کہ حيوانى علم محدود ھے يعنى جتنا اسے واھب العطا يا کى طرف سے مل گيا بس اتنا ھى ھےـ شھد کى مکھى بس مسدس خانے بنانا جانتى ھے اور وہ بھترين بناتى ھے کوئى مھندس بغير پرکار کى مدد کے اتنے متوازن خانے نھيں بناتا ليکن جو شکل اس کى فطرت ميں داخل ھے بس وھى بنا سکتى ھےـ مربع و مثلث وغيرہ نھيں بنا سکتى اسى طرح تارِ عنکبوت بے نظير صنعت ھے مگر اس کى شکل بدلنا اس کے امکان ميں نھيں ھے ليکن انسانى علم؟ اس کا کام ھے معلومات سے مجھولات کا پتا لگاناـ يہ اپنے علم ميں برابر ترقى کرتا رھتا ھےـ

(اس کا بيان رسائل ”اسلام کى حکيمانہ زندگي“ اور ”زندگى کا حکيمانہ تصور“ ميں تفصيل کے ساتھ ھوا ھے)

عمل کى منزل ميں انسان کى خاص صفت يہ ھے کہ حيوان کے افعال بتقاضائے طبيعت ھوتے ھيںـ اس سے بحث نھيں کہ بامحل ھيں يا بے محلـ مگر انسان ميں سوجہ بوجھـ حق اور ناحق کا امتياز اور صحيح و غلط ميں امتياز کى قوت ھے اور اسى اعتبار سے مختلف افراد کى انسانيت کے مدارج قائم ھوتے ھيںـ

اکثر افراد ايسے ھيں جن کى صورت انسان کى ھے مگر کردار حيوانى ھے وہ يہ ھيںـ جن کے افعال طبيعت کے تقاضے سے ھوتے ھيںـ ايک شخص کى طبيعت ميں غيرمعمولى غصہ ھے وہ بارود کا خزانہ ھے ذرا سى بات پر مشتعل ھو جاتا ھےـ اس سے اس جوش غضب کے ماتحت کبھى ايسے افعال بھى ممکن ھے وقوع ميں آ جائيں جو نتائج کے اعتبار سے ممدوح و مستحسن ھوں جيسے مظلوم کى حمايت ميں اسے غصہ آ جائے اور يہ بڑہ کر ظالم کو دفعہ کر دے مگر چونکہ اس کا غيض و غضب بتقاضائے طبيعت ھے اس لئے دوسرے وقت اس شخص سے خود کسى بے گناہ پر ظلم ھو گا اور يہ اپنے غصہ کى وجہ سے ايسے اقدامات کر ڈالے گا جو عقلاً و شرعاً کسى صورت سے بھى ممدوح و مستحسن نھيں ھو سکتےـ اسى طرح ايک آدمى ھے گيلى مٹى کا بنا ھوا جسے کبھى غصہ ھى نھيں آتاـ يہ بعض اوقات ايسے محل پر سکوت کرے گا جھاں کوئى اقدام بڑے فتنہ و فساد اوربرے نتائج کا باعث ھو اس وقت سب اس کى تعريف کريں گے کہ کيا کھناـ اس نے اپنے حلم وتحمل سے کتنے بڑے فساد کو روک لياـ ليکن چونکہ يہ سکوت و سکون کسى احساس فرض کا نتيجہ نھيں بلکہ طبيعت کا تقاضا ھےـ اس لئے يھى شخص ايسے مواقع پر بھى سکوت کر جائے گا جھاں خاموشى ظلم و تشدد کى ھمت افزائى کا سبب ھے يہ انسانى کردار نھيں ھےـ



1