ادیان کے درمیان گفتگو اس کی ضرورت ،اس کے آداب

1

ان تمام امور سے ہمیں پتہ چلتا ہےکہ اسلام دین کامل و جامع ہونے کے باوجود اھل کتاب کے ساتھہ مفاھمت آمیز زندگی گذارنے کادرس دیتا ہے ۔

گفتگوکے فائدے

1 دشمنی کا خاتمہ کرنا:انسانوں کے درمیان دشمنی و اختلافات کا ایک اہم سبب تسلط پسندی و استعمارہے ،اس صورت میں طاقت سے مقابلہ کرنے کے علاوہ کوئي اورچارہ نہیں رہتا احکام جھاد جودراصل دفاع ہی ہے اسی غرض سے واجب قراردیا گیا ہے ۔
دشمنی کے دوسرے اوربھی اسباب ہیں جن میں مذھبی اعتقادی سیاسی اورسماجی اختلافات ہیں ان اختلافات کا سرچشمہ ذاتی نظریات و افکار ہيں ،ہر وہ نظریہ جو خود کوبرحق جانتا ہے اسے مخالف کے سامنے تعصب وتشدد کامظاہرہ کرنے کے بجاۓ منطق و استدلال سے کام لینا چاہیے کیونکہ عقیدہ امر قلبی ہے اور اسے طاقت کے ذریعے نہیں بدلاجاسکتا اور تجربہ سے بھی ثابت ہوچکا ہےکہ برحق امرکوبھی جب طاقت کے بل پر منوانے کی کوشش کی گئي ہے ناکامی ہوئي ہے اور اس کے خلاف رد عمل سامنے آیا ہے ،یقینا منطقی رویے سے دشمنیوں کو دوستی میں بدلاجاسکتا ہے قرآن کریم اس بارے میں ارشاد فرماتاہے کہ ولا تستوی الحسنۃ ولاالسیئۃ ادفع بالتی ھی احسن فاذا الذی بینک و بینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم 23 بھلائي اور برائی کبھی برابرنہیں ہوسکتی تو سخت کلامی کا ایسے طریقے سے جواب دو جو نہایت اچھا ہو تو تم دیکھو گے کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا دلسوزدوست تھا

آیت میں لفظ احسن استعمال کیا گیا ہے جس کی روسے مومنین پر واجب ہےکہ وہ اچھی تعبیریں استعمال کریں اورخندہ پیشانی سے مد مقابل سے پیش آئيں اسی طرح نازیبا اور اشتعال انگيز الفاظ سے پرہیزکريں تاکہ مدمقابل کو محبت کا احساس دلاسکیں یقینا یہ روش مد مقابل کو متاثر کرے گی ۔

اسلام نے گفتگو کا دروازہ کھول کرتاریخ میں پیداہونے والی دشمنیوں کو جو ایک دوسرے پر باطل عقائد کے الزامات لگانے کی وجہ سے وجود میں آئي تھیں اور جن کی وجہ سے خونریزاور تباہ کن جنگيں ہوئي تھیں ختم کرنے کاراستہ صاف کردیا ہے گرچہ حکومتوں نے عوام پر تسلط جمانے کے لۓ دینی نظریات سے غلط فائدہ اٹھایا ہے ۔

2 ھدایت کے اسباب فراہم کرنا

حق تک پنچنا ،کج فہمی اور انحرافات سے نجات ہرانسان کی آرزو ہے ان اھداف کے حصول کے لۓ بعض اصولوں کی پابندی ضروری ہے ان میں ایک اہم ترین اصول حق پسندی کا جذبہ پیداکرنا ہے انسان اسی وقت حق تک رسائی حاصل کرسکتا ہے جب وہ بغیر کسی تعصب ،پہلے سے فیصلہ کۓ بغیر، دیگر افکار ونظریات کا مقابلہ کرے اور ان کی تمام دلیلوں کا غور سے جائزہ لے تاکہ ان میں سے سب سے اچھی اورمتقن دلیل کو قبول کرسکے ،اگر خاص ذھنیت اورفیصلے کے ساتھہ مخالف نظریے کا سامنا کریےگا تو اس کے درست یا نادرست ہونے کے بارے میں صحیح فیصلہ نہیں کرپاۓ گا اورنہ حق تک پہنچنے کے اپنے مقصد ہی کو حاصل کرپاۓ گا قرآن کریم اس سلسلے میں فرماتا ہے فبشرعبادالذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ اولئک الذین ھداھم اللہ و اولئک ھم اولوالالباب اور تم میرے بندوں کوخوش خبری دیدو جو بات کو جی لگاکرسنتے ہيں اور پھر اس میں سے اچھی بات پرعمل کرتے ہیں یہی لوگ وہ ہیں جن کی خدانے ھدایت کی ہے اور یہی عقل مند ہیں ۔

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے روایت ہےکہ خدانے اس آیت میں غوروفکرکرنے والوں کوبشارت دی ہے 25 اوریہ بشارت مومنین سے مخصوص نہیں ہے ۔

علامہ طباطبائي نے اس آیت سے دوطرح کی ھدایت کے معنی اخذ کۓ ہیں ایک ھدایت اجمالی ہے دوسری ھدایت تفصیلی ہے ،انہوں نے ھدایت اجمالی کو حق پسندی کے جذبہ سے تعبیر کیا ہے اور کہتے ہیں کہ یہ جذبہ ھدایت تفصیلی پر منتج ہوسکتاہے جوکہ تمام معارف الھی کو سمجھنا ہے 26 ۔

گفتگو کے لۓ ضروری شرطیں

گفتگو کے طرفداروں کو بعض اصولوں کو قبول کرنا ہوگا یہ اصول حسب ذیل ہیں ۔

الف :علم و آگہی ؛حکماء و فلاسفہ کے نزدیک انسان کی صفت نطق اسے دیگر حیوانات سے ممتاز کرتی ہے ،ان کی مراد انسان کی غور و فکر کرنے کی صلاحیت ہے جس کا وہ اپنی زبان کے ذریعے اظہار کرتاہے تاہم انسانوں کے درمیان ایسے لوگ بھی پاۓ جاتے ہیں جو اس ذاتی صفت کے برخلاف تعقل و تدبر کو کوئي اھمیت نہیں دیتے قرآن نے اس گروہ کو جانوروں سے بدتر اور انسانوں کے زمرے سے خارج قراردیا ہے ارشاد ہوتاہے "ان شرالدواب عنداللہ الصم البکم الذین لا یعقلون 27 بے شک زمین پر چلنے والے تمام حیوانات سے بدتر خدا کے نزدیک وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو کچہ نہیں سمجھتے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next