ادیان کے درمیان گفتگو اس کی ضرورت ،اس کے آداب

1

اس نظریے کے طرفداروں کا کہنا ہےکہ نسبیت پسندوں نے یہ دیکہ کرکہ مختلف تہذیبوں کے قواعد الگ الگ ہیں یہ غلط نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کسی بھی تہذیب کے قواعد دوسری تہذیب سے اچھے نہيں ہیں بلکہ کسی تہذیب کے قواعد کا دوسری تہذیب کے قواعد سے بہتر ہونے کا انحصاراخلاقی نظام کے اھداف پر ہے اس نظریے کے حامل افراد کا کہنا ہےکہ اخلاقی قواعد کا ھدف معاشرے کی بقا،انسانوں کے رنج و غم برطرف کرنا ،انسانی رشد وشکوفائی اور ان کے مفادات کے تصادم کو منصفانہ طریقے سے حل کرنا ہے یہ اھداف مشترکہ اصولوں کو جنم دیتے ہیں جودرحقیقت ثقافتی اختلافات کا سبب بنتے ہیں ان ہی اصولوں کی تفصیلات انسان شناس ماہریں نے بیان کی ہیں ۔

اٹھارویں صدی کے فلسفی "ڈیوڈھیوم نے کہا ہے کہ انسانی سرشت تمام اعصارو امصار میں ایک ہی رہی ہے اورحال ہی میں اے او ولسن نے انسانی سرشت کی بیس خصوصیات شمارکی ہیں 42۔

3 :اسلام کا نظریہ ؛اسلام انسان کی کلی خصوصیات کے بارے میں یگانگي کا نظریہ رکھتا ہے و اخلاقی اصول کوثابت اور تمام انسانوں کے درمیان اور تمام زمانوں میں مشترک سمجھتا ہے گرچہ ممکن ہے بعض فروعات میں تبدیلیاں آئيں بنابریں انسان میں تبدیلیاں جو ایک مادی حقیقت ہے اقدار کی تبدیلیوں سے الگ مسئلہ ہے اور اگر ہم انسانی اقدار کو قابل تغیر اور نسبی جانیں تو ہمیں ہر گروہ ،ہر طبقے اور ہر آئيڈیالوجی کے حامل فرد کے لۓ الگ الگ اخلاق و اقدار کا قائل ہونا پڑے گا اس کے معنی یہ ہونگے کہ اخلاق کاسرےسے انکار کرکے اخلاقی اقدارکو بے بنیاد قراردیں ۔

آیت فطرت میں خدا ارشاد فرماتاہے "فاقم وجھک للدین حنیفا فطرۃ اللہ التی فطرالناس علیھا لاتبدیل لخلق اللہ ذلک الدین القیم ولکن اکثر الناس لایعلمون اے رسول تم باطل سے کتراکر اپنا رخ دین کی طرف کۓ رہو یہی خدا کی بناوٹ ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے خدا کی درست کی ہوئي بناوٹ میں تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا یہی مضبوط اور بالکل سیدھادین ہے مگر بہت سے لوگ نہیں جانتے ۔

اس آيت میں صراحتا دین کو امرفطری قراردیا گیا ہے ۔

علامہ طباطبائي اس آيت کے ذیل میں اس بات کی تفصیل بیان کرتے ہوۓ کہ انسان کی سعادت ان کے اختلافات کی بناپر اگر مختلف ہوتی تو ایک صالح اور واحد معاشرہ جو انسان کی سعادت کا باعث ہوتا وجود میں نہ آتا، اسی طرح اگر انسان کی سعادت سرزمینوں کے الگ الگ ہونے کی بناپر جھان وہ زندگي گذارتے ہیں مختلف ہوتی اور اجتماعی اداب کے مطابق ہوتی تو انسان نوع واحد کے زمرے میں نہ آتے بلکہ علاقوں کے مطابق الگ الگ نوعیت کے ہوتے اسی طرح اگر انسانوں کی سعادت زمانے کے لحاظ سے مختلف ہوتی تو انسان مختلف قرون و اعصارمیں مختلف نوع کے ہوتے اور ہرعصر کا انسان دیگر زمانے کے انسان سے الگ ہوتا۔
اس طرح انسان کبھی کمال کی منزلیں طے نہ کرتا اور انسانیت ناقص رہ جاتی کیونکہ اس صورت میں کوئي نقص وکمال ہی نہ ہوتا کیونکہ اگر ماضی کا انسان آج کے انسان سے مختلف ہوتا تو اس کا نقص و کمال اسی سے مخصوص ہوتا نیز آج کے انسان کا نقص وکمال اس سے مخصوص ہوتا ،یہ بات یاد رکھنے کی ہےکہ انسان صرف اسی صورت میں کمال کی طرف بڑہ سکتا ہے جب جہت تمام زمانوں میں تمام انسانوں کے درمیان مشترک و ثابت ہو
البتہ ہماری اس بات کا یہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ افراداور زمان و مکان میں اختلاف دینی سنن کی برقراری میں موثر نہیں ہے بلکہ فی الجملہ اور کسی حدتک موثر ہے 44 بنابریں علامہ طباطبائي کی نظر میں دودلیلوں کی بناپر 1 انسان کے اجتماعی ہونے 2 اور اس کی وحدت نوعی کی بناپرانسانیت حقیقت واحدہ ہے جو تمام افراد و اقوام کے درمیان مشترک ہے علامہ نے اس بحث کے اختتام پر تفصیلی دلائل ذکرکۓ ہیں اوران مسائل کی مکمل وضاحت کی ہے ۔

اس سلسلے میں دیگر آيات جیسے آیۃ ذر 45 اور آيۃ عھد 46 و47 کی طرف مراجعہ کیا جاسکتا ہے یہ آیات انسانی وحدت اور اس کی فطرت واحدہ پردلالت کرتی ہیں ۔


حضرت علی علیہ السلام نے فلسفہ بعثت انبیاء بیان کرتے ہو‌ۓ فرمایا ہےکہ فبعث فیھم رسلہ و واتر الیھم انبیاءہ لیستادوھم میثاق فطرتہ و یذکروھم منسی نعمتہ و یحتجوا علیھم بالتبلیغ و یثیروا لھم دفائن العقول 48 وقفے وقفے سے ان (انسانوں ) کے درمیان انبیاءو رسل بھیجتارہا اوران کے ذریعے انہیں انتباہ دیا کہ عھد الست (میثاق فطرت ) پر قائم رہیں اور فراموش شدہ نعمت کی یاددھانی کراتے رہیں اور تبلیغ سے ان پر حجت تمام کریں اور سوئي ہوئي عقلوں کو بیدار کریں (نہج البلاغہ خطبہ اول )

انبیاء الھی اس وجہ سے آے تھے کہ لوگوں کو یہ سمجھائيں کہ تمہاری روح ضمیراور باطن کی گہرائيوں میں عظیم خزانے دفن ہیں اور تم اس سے غافل ہو ،بنابریں حقیقت و دانائی ھنر وجمال خیر وفضیلت عشق و پرستش ان سارے امورکا سرچشمہ فطرت ہے یعنی انسان روح وبدن سے مرکب حقیقت ہے ۔

انسان کی روح الھی ہے (ونفخت فیہ من روحی )49 اور اس کا جسم عناصر طبیعی سے مرکب ہے جس کی بناپر وہ نیچر یا طبیعت سے وابستہ ہے اور عناصر غیر طبیعی اسے ماوراء طبیعت کی طرف لے جاتے ہیں ۔

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر کو اپنے معروف جملے میں انسان کی تعریف سے آگاہ فرماتے ہیں کہ "اما اخ لک فی الدین اور نظیرلک فی الخلق " 50یعنی انسان یا تمہارے دینی برادر ہیں یا خلقت میں تمہاری طرح مساوی ہیں ،لھذا اس قدر غرور ناسازگاری اور اختلاف کس بناپر؟ کیا سب انسان ہمرہ و ہم قافلہ و ہمزاد نہیں ہیں ؟51 مجموعی طورسے یہ کہا جاسکتا ہےکہ انبیاء الھی کی تعلیمات فطرت بشری کے مطابق ہیں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next