مقالات خطیب اعظم



مقالات خطیب اعظم

مولانا سید غلام عسکری

مذہب کی واپسی

ہم کو اپنے کو خوش نصیب قرار دینا چاہئیے کہ ہمارے اس عہد مذہب کی واپسی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ مذہب کی واپسی کے عمل کے ظاہری اور غیبی محرکات ہیں۔ انسان ہر طرح کے اصولوں کو آزما چکا۔ ہر فلصفہ کو اپنا چکا ۔ ہر پابندی کو قبول کر چکا۔ ہر طرح کی مطلق العنان آزادی اور بے راہ روی پرگامزن ہو چکا مگر ڈھاک کے تین پات والی صورت حال برقرار رہی۔ نہ چین تھا نہ چین ہے۔ نہ چین ملنے کی امید ہے۔ سکون کا پیاسا در در مارا پھرا مگر نہ صرف پایا رہا۔ بلکہ اس کی پیاس میں شدت کا اضافہ ہوتا گیا۔ آخر کار تھکا ہارا ۔ انسان اس مذہب کے گھاٹ کی چعف واپس ہونے لگا۔ جس کو چھوڑ کر اور چھوٹا سمجھ کر سراب کے وسیع و عریض میدان کی طرف اس کی وسعت اور چمک دمک دیکھ کر چلا آیا تھا ۔ گھاٹ پھر گھاٹ ہے۔ بنے ہوئے راستے ہی سےسرابی آزادی نے انسان سے مذہب کا گھاٹ چھڑایا تھا۔ آج سراب کی حقیقت کی معفت ہی نے مذہب کی واپسی کا عمل شروع کرایا ہے۔
حقوق انسانی کے سفر کا آج آخری سنگ میل " اقوام متحدہ " کرب کدہ بنا ہوا ہے۔ عیاری ۔ جوٹتوڑ۔ مکر و فریب کا گڑھ ہے۔ اور سارے اعمال بد انسانی حقوق کے نام پر انجام دیئے جا رہے ہیں جس طرح شکاری چارہ ڈالتا ہے اسی طرح بڑی طاقتوں کے عالمی نیک عالمی امداد عالمی قرض عالمی عدالت۔ سلامتی کو نسل وغیرہ کے چار ے ڈال رکھے ہیں جس کے ذریعہ چھوٹی قوموں کا شکار ہوتا رہتا ہے مشلاً ان کے خال مال پر قبضہ کرنا۔ پھر ان ہی کے ہاتھ کے مال کے مصنوعات کو گراں قیمت پر بیچنا۔ بھوک انسانوں کو ہتھیار فراہم کرنا تاکہ وہ اپنے ہی لہو کو پیئں اپنے ہی گوشت کو کھائیں اور اپنے ہاتھوں مر جائیں۔ ان کی سر زمین پر حفاظت علمی مدد۔ فنی تربیت کے نام پر قبضہ کرنا، مالکوں کو غلام بنا کر کام لینا۔ یہ اور اسی طرح کے ظالمانہ کام اقوام متحدہ کے ذریعہ آج کے مکار انسان انجام دے رہے ہیں۔ جس پر پڑتی ہے وہ محسوس کرنا ہے۔ جو ابھی چارہ کھانے میں مشغول ہے وہ فکر مستقبل سے بے نیاز ہے اور مگن ہے۔ جب چارہ ختم ہوگا تب محسوس کرےگا۔ اس عالمی عیار خانہ کے خلاف صرف ایران ہے جو حقائق کو بے نقاب کرتا رہتا ہے۔ اکیلا عالمی عیار خانہ کے خلاف صرف ایران ہے جو حقائق کو بے نقاب کرتا رہتا ہے۔ اکیلا مظلوموں کو متحدہ ہونے کے لئے پکارتا رہتا ہے ۔ چونکہ ایران کا جسم و قلب و دماغ سب مجروح ہو چکا ہے لہذا اس کو پوری طرح ہر مظلوم کے دکھ درد کا احساس ہے۔ اور اسی احساس کو وہ اپنے خون کی قیمت میں ہر مظلوم کے خون میں دوڑا دینا چاہتا ہے ۔ کچھ کو ہوش آنے لگا ہے۔ کچھ کان کھڑے کرنے لگے ہیں۔ کچھ نے سفر شروع کر دیا ہے۔ لیکن صدیوں کے عالمی استحصال کے مقابلہ میں ایران کی چند سالہ کوششیں ابھی محسوس نہیں ہوتی ہیں۔ جب کہ سارے ذرائع ابلاغ ایران کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں اور ایران نے اپنے لہو کے قطرات کے گرنے کی آواز کو اپنا ذریعہ بلاغ بنا رکھا ہے۔ دی الحال اور کوئی ذریعہ اس کے لئے ممکن بھی نہیں۔ بہرحال یہ ایرانی لہو کی ٹپ تُ انسانوں کو جگا رہی ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ پہاڑ جتنا بڑھتا ہے حاصل ضرب اتنا ہی زیادہ آتا ہے دو کا دو گنا چار ہوتا ہے اور ہزار کا دو گنا ہزار ہوتا ہے۔ گنا نہیں بڑھتا وہ دو گنا ہی رہتا ہے مگر د کا حاصل صرف اکائیوں میں گنا جاتا ہے اور ہزار کا حاصل ضرب ہزاروں اور لاکھوں میں گنا جاتا ہے اسی طرح کام کا آغاز مشکل ہوتا ہے۔ رفتار سست ہوتی ہے۔ ماحصل کم ہوتا ہے۔ قربانی شدید و عظیم ہوتی ہے۔ لیکن جب کام چل مکلتا ہے تو مکہ کے تیرہ سال کے مسلمان تین سو بھی نہیں ہوتے ہیں اور مدینہ کے دس سال کے مسلمان لاکھوں ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح انشاٗ اللہ وہ دن دور نہیں ہے جب مذہب کی واپسی کا یہ ہلکا پھلکا عمل جو اس وقت سست رفتاری سے جاری ہے وقت آنے پر سیلابی اور طوفانی بنے گا۔ یہ مذہب کی واپسی کے ظاہری محرکات کی طرف چند اشارے تھے جو اس تحریر میں کئے گئے اور غیبی محرک جو اصلی محرک ہے وہ عہد ظہور مہدی کی روز بروز قریب ہے۔
چناچہ کل جن باتوں کا سنانا۔ بتانا نامکن تھا آج وہ شوق سے سنی اور سمجھی جا رہی ہیں۔ جن باتوں سے کل روکنا ناممکن تھا اور مذہب خس و خاشک کی طرح بد کرداری کے سیلاب میں بہتا دکھائی دے رہا تھا۔ آج اس سیلاب سے مفرت ہو چکی ہے مذہب جسے کل خس و خاشک سمجھا جاتا تھا آج اسی سے نشیمن کی تعمیر کی جا رہی ہے۔ انسان کی فطری محبت و فطری نفرت اجاگر ہو رہی ہے۔ ایسے موقع پر فطرت کی صحیح راہ نمائی بے حد ضروری ہے بے حد مفید ہے اور یہ رہبری سوائے اسلام کے سوائے اقوال معصوم کے۔ سوائے احکام معصوم کے کوئی نہیں کر سکتا۔
لیکن اس تاریخ حقیقیت سے ایک سکنڈ کے لئے آنکھ بند نہ ہونا چاہئے کہ جتنے ظلم شاہی و شا ہنشاہی نے کئے۔ اس سے زیادہ ظلم آزادی جمہوریت سو شلزم۔ کمیونزم نے کئے ہیں اور ان سب نے مل کر جتنے ظلم کئے ہیں مذہب کے نام پر مذہب کی آڑ میں وہ سارے مظلوم عیار مذہبیس سربرا ہوں نے کئے ہیں۔ تمام مذاہب نے جتنی برائیاں غلطیوں اور مظالم کئے ہیں ان کی ساری نفرطیں اسلام کے دامن پر بھی موجود ہیں یعنی واقعات و حالات و تاریخ کے آئنہ میں مذہبیت و لامذہبیت۔ مادیت و روحانیت۔ شاہی و آزادی سرمایہ داری اور کمیونزم سب کی صورت بالکل ایک طرح کی ہے اور یکساں ہے۔
صرف صدیوں کا عالمی مظلوم یعنی دین اہلبیت علیہم السلام جو دین الہیٰ ہے جو دین محمدی ہے۔ جو اصلی اسلام ہے جو کسی تاریخ کو اپنی تاریخ ماننے پر تیار نہیں ہے۔ اس کی تاریخ چودہ مظلوم معصومین کی تاریخ ہے یا ان شہداٗ علماٗ صالحین اور متقی افراد کی تاریخ ہے جنھوں نے اپنی فکر کو اپنے علم کو اپنے ذہن کو اپنے عقیدہ کو فکر معصوم کے تابع رکھا اور جنھوں نے عمل کی دنیا میں ہر سانس لینا اسی وقت جائز سمجھا جب اس کے جواز کو معصوم کی سند حاصل ہوئی مختصر یہ کہ تاریخ مذہب اہلبیت ۱۴ معصوموں کی تاریخ ہے۔ چاہے وہ مصر میں رہے ہوں یا ایران میں یا ہندوستان میں۔
ساری تاریخ میں صرف یہی تاریخ ہے جس کے دامن پر غیر کے خون کے دھبے نہیں ہیں اس لئے اس کے جسم پر غیروں کے لگائے ہوئے بےحساب زخم ضرور ہیں۔ لہذا نشر حقوق کے ساتھ پوری قوت کے ساتھ نشر مذہب اہلبیت علیہم السلام بھی ضروری ہے۔ ورنہ اگر قانون نا نافذ نہ ہوا تو قانون کا کوئی فائدہ نہیں تاریخ دین اہلبیت السلام میں قانون حقوق بشر ہمیشہ نافذ رہا ہے اور آج کا اسلامی ایران پھر اسی نفاذ کے لئے قربانیاں دے رہا ہے۔
آخر کلام میں اس بنیادی بات کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ وقت بافذہ نہ قانون ساز اداروں کے پاس ہے نہ انتظامیہ اور عدلیہ کے پاس ہے نہ قومی حکومت کے پاس ہے نہ بین الاقومی تنظیموں اور اداروں کے پاس ہے نہ نام مذہب میں ہے نہ اسلام کے نام میں۔ اول و آخر قوت نافذہ و عقیدہ خدا و آخرت میں ہے۔ اسی عقیدہ سے مذہب اہلبیت شروع ہوتا ہے۔ اسی کے مطابق اس نے صدیاں طے کی ہیں اور اسی عقیدہ کے ذریعہ پوری انسانیت کو سکون دینے والا ظہور کرنے والا ہے۔ عہد ظہور ۔ عہد ظہور نہیں ہے۔ بلکہ نے چین انسانیت کی عالمی آرامگاہ ہے جس پر عقیدہ خدا و آخرت سایہ فگن ہے۔
باتیں بےحد اچھی ہوں تن بھی بیکار ہیں جب تک باتیں کرنے والے خود کو اچھائی کا نمونہ بنا لیں۔ کیا ہم غلامان اہلبیت علیہم السلام نے اپنے کو نمونہ بنانے کا ارادہ کر لیا ہے اگر ارادہ کر لیا ہے تو بسم اللہ عمل شروع ہو جانا چاہئے۔

سماجی مذہب یا حقیقی مذہب

زندگی کے بہاؤ کا نام سماج ہے بہاؤ پانی کی فطرت ہے لیکن بہاؤ کو حد کے اندر بھی رکھا جا سکتا ہے اور حد سے باہر بھی بہنے کا موقع دیا جا سکتا ہے۔ بہاؤ تیز بھی کیا جا سکتا ہے۔ اور اس کی رفتار کو کم بھی کیا جا سکتا ہے۔ بہاؤ کو تقسیم بھی کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح دریا سے بڑی نہر اور نہر سے چھوٹی نہریں نکالی جاتی ہیں۔ اور بہاؤ کو یکجا بھی کیا جا سکتا ہے جیسے مختلف دریاؤں کو ایک دریا میں بلا دیا جاتا ہے۔ بہاؤ کو کبھی روکا بھی جستا ہے۔ اور کبھی رکاوٹوں کو دور بھی کیا جاتا ہے۔ کبھی پانی کی سطح اونچی کی جاتی ہے، کبھی سطح کو نیچا لایا جاتا ہے۔ مختصر یہ ہے کہ پانی کی فطرت ہے نشیب کی طرف بہنا لیکن اس فطرت کو سلیقے کے ٓریعے مفید بنایا جا سکتا ہے اور بیش از بیش فوائد تباہیوں بھی لا سکتا ہے۔ فطرت اور اس کے استعمال کا سلیقہ دو چیزیں ہیں۔ فطرت می٘ں انسانی عمل کو دخل نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ خالق کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔ لیکن اس کے استعمال کا سلیقہ وہ کام ہے جس میں انسانی عمل کو بڑا دخل ہے۔ عمل کو ضرورت ہقتی ہے ۔ لیکن چونکہ انسان کتنا ہی باکمال کیوں نہ ہو جائے پھر بھی ناقص ہی رہتا ہے۔ لہذا اس کی تعلیم و تربیت بھی ناقص رہےگی۔ اسی بنا پر ہم ہمیشہ اپنے نظام تعلیم ، نصاب تعلیم ، انداز تعلیم، مقاصد تعلیم پر بتائج تعلیم کے پیش نظر نظر ثانی کرتے رہتے ہیں۔ کیونکہ انسانی نظریات اور اصول ہمیشہ تجرباتی دور میں اور رہیں گے اس انسانی کمزوری کو دور کرنے کے لیے خدا نے مذہب بھیجا۔ کیونکہ کامل کا بھیجا ہونا نظام بھی کامل ہوگا۔ اور جب اس کے لانے والے سمجھانے والے ، پھیلانے والے بھی معصوم ہیں۔ تو نظام بھی کامل ہے۔ اور اس نظام کی تعلیم و تربیت بھی نقائص سے پاک ہے۔
مذہب اسی لئے آیا ہے کہ انسان میں خواہشات کا پیدا ہونا فطری ہے مگر خواہشات کے اس فطری بہاؤ کو حدود میں رکھنا ضروری ہے، ان سدود کے مجموعہ کا نام شریعت ہے اور عربی میں شریعت کے معنی بھی گھاٹ اور کنارہ کے ہیں۔ شریعت کا کام یہی ہے کہ انسانی خواہشات کے ذریعہ پیش از پیش انفرادی اور اجتماعی فوائد حاصل کئے جائیں۔ اور خواہشات کے حرص و ہوس بن جانے کے بعد جو انفرادی ۔ خاندانی ، نسلی ، قومی ، بین الاقوامی تباہیوں آتی ہیں۔ جن کے اثرات صدیوں اور ہزاروں سال باقی رہتے ہیں کہ تباہیاں تبہایوں کو پیدا کرتی ہے رہتی ہیں بلکہ تبہایوں کا شجرہ چل پڑتا ہے اور تبہایوں کی نسلیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ اس عظیم و عریض و طویل تبہایوں سے انسان کو اور انسانی معاشرہ کو بچانا بھی دین اور شریعت کا کام ہے۔ لیکن شریعت کا فائدہ اسی قوت حاصل ہوگا اور دین معاژرہ دین اور شریعت کا پابند ہوگا۔
مگر بجائے اس کے کہ ہمارا سماج مذہب کا پابند ہوتا ہم نے دین کو اپنی خواہشات کا پوبند بنانے کے لئے سماج کو مذہب پر حاوی کر دیا ہے آج ہم مذہب سے بالکل آزاد ہو چکے ہیں۔ ہر حرام حلال ہے۔ ہر واجب ترک ہے ہر مستحب مکروہ ہے۔ اس کے برخلاف سماج جس مباح بلکہ حرام کام کو واجب کر دے اس کا بجا لانا واجب ہے۔ ہم مذہبی شعور کھو چکے ہیں۔ جہالت عیب ہے ۔ مگر دین سے جہالت کا اظہار اعلیٰ سوسائٹی کی ممبری حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے۔ حد یہاں تک آ پہونچی ہے کہ ہ دین کو مانتے ہیں اور اس پر معترض ہونے کو دینی حق تصور کرتے ہیں۔ دینی احکام کا مضحکہ اڑانا اور مسلمان ہونا اگرچہ متضاد باتیں ہیں۔ مگر ہر ترقی پسند مسلمان اس تضاد کا مجسمون ہے اور تمام مسلمان اسی ترقی پسند مسلمان کا اتباع کرنا اپنے لئے لازم سمجھتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سماج میں جس چیز کو واجب سمجھ لیا گیا ہے۔ اس کو بہرحال انجام دیا جائےگا چاہے مذہب اس کو لاکھ حرام بتائے۔
اس بیماری کا علاج یہ ہے کہ ہم سین کو تعلیم حاصل کریں اور دینی واقفیت کو سماج میں رائج کریں تاکہ سماج اور دین کتنا فاصلہ ہے اور کتنا تضاس پیدا ہو چکا ہے۔ اس کا احساس ہمارے سماج کو ہو جائے اور اس احساس کو تعمیری شکل دینے کے لئے لازم ہے کہ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو حقیقی دین کا پابند بنائیں۔ اس طرح ہم اس سماجی دین سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو سماجی دین نہیں ہے بلکہ وہ بے دینی ہے۔ جس کو سماج نے اختیار کر لیا ہے اور شعور دین کو بےحس و مضلوج رکھنے کے لئے اس بےدینی کو مذہب کا لباس پہنا دیا گیا ہے اٹھئے اور اس لباس کو نوچ پھیک دیئیے تاکہ دینی کی مکروہ صورت سب کے سامنے آ جائے اور دینی تعلیم کو عام کیجئے۔ تاکہ اس کی روحانی اور پاکیزہ صورت سب کے سامنے آ جائے اور ہمارے معاشرے کا ہر فرد عاشق دین بن جائے۔

رحمت ورنہ عذاب

پرچہ جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوگا تو ماہ مبارک رمضان شروع ہو چکا ہوگا۔ کچھ مسلمان بغیر روزہ کے رمضان کی توہین کریںگے۔ اور کچھ مسلمان روزہ رکھ کر رمضان کا سامنا کریںگے۔ بہت کم ہوںگے بہت ہی کم ہوںگے وہ مسلمان جو ماہ رمضان کا جون کی سخت گرمی میں استقبال کریںگے۔ اگرچہ ہمارے ہادی و رہبر و مولی و آقا جناب امیرالمومنین علی ابن ابی طالب السلام فرماتے تھے مجھے روزہ پسند ہے گرمی کا اور جہاد پسند ہے تلوار کا۔
جناب عیسیٰ نے اپنی مادر گرامی کو زندہ کر کے پوچھا آپ دنیا میں واپس آنا چاہتی ہیں یا نہیں آپ نے فرمایا ضرور واپس آنا چاہتی ہوں لیکن صرف اس لئے کچھ نمازیں سخت ٹھنڈی راتوں میں پڑھ سکوں اور کچھ روزے سخت گرم دنوں میں رکھ سکون۔ جناب مریم سخت روزہ اور مشکل نماز کا استقبال کر رہی ہیں اور مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام سخت گرمی کے شدید روزہ کے لئے پرشوق نظر آتے ہیں۔ کیا حضرت علی اور جناب مریم کے اقوال صرف سن لینے کے قابل ہیں۔ اور یہ کہنا کافی ہے کہ قابل تعریف یہ اقوال یا خوب فرمایا ہے یا ایمان میں میں تازگی اور جلا پیدا ہوتی ہے ان اقوال سے یا یہ تو حضرت ہی فرما سکتے تھے یا اس فقرہ سے آپ کے جذبہ عبادت و راہ خدا میں آپ کی مشکل پسندی واضح ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ تعریفی اقوال اور ریمارک سے ان حضرات سے عقیدت و وابستگی کا حق ادا ہوتا ہے اور نہ ان اقوال ہی کا حق ادا ہوتا ہے۔ حق ادا کرنا ہے تو ان اقوال کا ہمارے اندر فکر پر اور رفتار عمل پر اثر پڑنا چاہئے۔ یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ ہم کو شکر خدا ادا کرنا چاہئے کہ ہم کو ایک عظیم عبادت کی انجام دہی کا موقع مل گیا اور ہم کو غیر معمولی ثواب حاصل کرنے اور اپنے گناہوں کو معاف کرانے کا موقع مل گیا۔ احکام خدا کی تعمیل سے فرار آج مزاج مسلم بن گیا ہے۔ نماز ہے تو سرپٹ پڑھی جا رہی ہے نہ قرائت درست نہ سانس درست نہ قیام و قعود درست نہ واجبات ادا نہ ارکان کی واقفیت۔ نماز کیا پرھ رہے جیسے کسی دوسرے کی طرف سے پڑھ رہے ہیں۔کہ کسی طرح ختم ہو۔ نماز پڑھتے وقت معلوم ہوتا ہے کوئی پیچھے ڈنڈا لئے دوڑا آتا ہے لہذا جی جان چھوڑ کر تیز سے تیز نماز پڑھی جا رہی ہے۔ سچ ہے شیطان تو ہمات کا ڈنڈا لئے دوڑا رہے ہے تاکہ کہیں جزبہ عبودیت ان کو اپنی گرفت میں نہ لے لے۔ ہم نماز میں بھی شیطان ہی کی اطاعت کر رہے ہیں یہ ہے ہماری بد نصیبی کی حد۔ فطرہ کم سے کم قیمت کا نکلے۔ اور کم سے کم نکلے بلکہنہ نکلے تو بہتر ہے۔ زکوٰۃ کسی نہ کسی طرح واجب نہ ہونے پائے۔ خمس سے بچ نکلیں اور بچ نکلنے کے لئے تاریخ خمس سے پہلے خرچ کر لیں۔ کسی کو قرض دیدیں۔ غرضکہ کچھ کر لیں مگر فطرہ زکوٰۃ ، خمس سے فرزر کا موقع مل جائے۔ یہ اور اسی طرح کی بہت سی مشالیں اس کا ثبوت ہیں کہ احکام خدا سے فرار آج مزاج مسلم بن چکا ہے۔ فرار کی پہلی منزل واجب سے بچ نکلنے کی کوشش ہے اور آخری منزل واجبترک کرنے کی ہے بلکہ بحث کرنے کی ہے کہ آکر اس گرمی میں اس روزہ کا کیا فائدہ۔ اس لئےکہ دنیاوی منفعت ۔ اور مادی فائدہ کے علاوہ تو کوئی فائدہ غین پر ایمان لانے والے مسلمان کی نظر میں ہے نہیں۔ وہ روحانی مذہب کو بھی صرف مادی حد تک مانتا ہے۔ نذر چھکنے میں بڑی عقیدت کا اظہار کرتا ہے۔ نذر کھانے میں سفا ثواب سب ہی کچھ مانتا ہے۔ لیکن روزہ رکھنے میں نہ صرف قانون شکن ہے بلکہ قانون صوم پر بھ پیٹ معترض ہے۔اور قانون شکنی کا پرجوش حامی ہے لیکن جاہل کا جہالت پر مصر رہنا۔ مریض کا بدپرہیزی پر جان دینا بچہ کا ضد کرتے رہنا۔ بری عادتوں کے لتٰیّ افراد کا اپنی عادتوں پر باقی رہنا ہر طرح برا ہے۔ قابل مذمت ہے تو مسلمان کا دین سے جاہل رہنا۔ احکام دین سے اوگروان رہنا۔ بے نمازی کا بےنمازی رہنا ۔ روزہ خوروں کا روزہ خور رہنا۔ مالی واجبات ہڑپ کرنے والوں کا مال خدا اور رسول و امام کو ہڑپ کرتے رہنا بھی ہر طرح برا ہے۔ قابل مذمت ہے ۔ قابل نفرت ہے۔ لہذا تبدیلی آنا چاہئے۔ تبدیلی لانا چاہئے ۔ تبدیلی لانے میں حصہ لینا چاہئے۔
ماہ رمضان رحمت کا مہینہ ہے۔ افطاری و سحری کی رحمت سے رمضان کی رحمتوں کو نہ پئے۔ بلکہ گناہوں کی معافی مل جانا۔ رکی ہوئی دعاؤں کا قبول ہا جانا۔ نفس میں نافرمانی سے نفرت پیدا ہو جانا۔ قلب و دماغ میں خدا کی اطاعت کا مہینہ قرار دیا گیا۔ اب یہ ہماری توفیق پر پر متحصر ہے کہ ہم ان رحمتوں کو حاصل کرتے ہیں یا رمضان میں روزہ نہ رکھنا اپنے لئے عذاب ہی عذاب مول لیتے ہیں۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں ہر وہ دن عید کا دن ہے جو گناہ کے بغیر بسر کیا جائے اور عید تب ہی عید ہے جب ہمارے اعمال کو خدا قبول کرے۔ لیکن اگر اعمال ہی نہ ہوں بلکہ اعمالیوں ہی بداعمالیاں ہوں تو پھر رحمت کے بجائے عذاب ہی عذاب کو ہم سیٹ رہے ہیں۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ جس دن نہ ہلے پناہ عذاب ہمارے سامنے آئےگا اس دن ہمارے لئے نہ طاقت برداشت ہوگی نہ جائے پناہ۔ لہذا آج ہی ہماری روش بدل جانا چاہئے۔ رحمت کے دروازے کھلے ہیں۔ تو بہ کریں اور روزے رکھیں۔ استغفار کریں اور اعمال قبول کرائیں۔

 

ہم خدا کے بندے ہیں اور رمضان خدا کا مہینہ ہے

غیر اسلامی خیالات نے آج مسلمان کے ذہن پر اتنا قبضہ کر لیا ہے کہ ہم دین کو ہلکا سمجھتے ہیں ہم کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم دین ہلکا سمجھتے ہیں۔ چناچہ احکام اسلامی خصوصاً عبادات کا ذکر ہمارے درمیان اس طرح ہوتا ہے کہ جب خدا کا حکم ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور ہونا چاہئے لہذا اس عبادت کا فائدہ کیا ہے۔ اس حکم خدا کا سبب کیا ہے۔ اس کے بعد ہمارا دوسرا قدم اٹھتا ہے کہ ہم احکام الہیٰ کا فلسفہ بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ نماز کا فلسفہ ۔ روزہ کا فلسفہ حج کا فلسفہ سود ۔ گانا ۔ لہو لعب وغیرہ کے حرام ہونے کے فلسفے۔ وغیرہ وغیرہ۔ بات جب فلسفہ پر آ گئی تو ہر انسان کو بولنے ۔ سوچنے کا موقع مل گیا اور دین کھولنا بن گیا۔ حالانکہ ۹۹ فیصدی صرف احکام بیان ہوتے ہیں اور ایک فیصدی احکام کے اسباب و نتائج بیان ہوئے ہیں۔ جبکہ اسباب و نتائج کی روشنی میں ہی فلسفہ ے اور بغیر اسباب و نتائج کے تذکرہ کے کیاں بیان ہوتے ہیں ساری دنیا کا نظام اسی اصول اور انداز پر ہے ہر معمار۔ ہر بڑھئی۔ ہر مستری ۔ ہر انجینیر ۔ ہر ڈاکٹر ۔ ہر وکیل ۔ ہر منتظم مختصر یہ کہ ہر کام کرنے والا۔ ہر ماہر صرف احکام صادر کرتا ہے کہ یہ لا کر دو۔ اس طرح کرو۔ اس طرح بولو مگر اپنے عمل اور حکم کی وجہ ہر قدم پر بیان نہیں کرتا۔ بلکہ جب کبھی کوئی ایسا مسئلہ آ جاتا ہے کہ وجہ بتلائے بغیر عمل نہ ہوگا یا عملسست ہوگا یا خرابی پیدا ہوگی تو وجہ بیان کی جاتی ہے اور نتائج سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ مذہب بھی اسی اصول پر صرف احکام دیتا ہے اور اپنے ماننے والوں سے یہ امید رکھتا ہے کہ ایمان کی بنیاد پر ان کو حکم دینا کافی ہے۔ اسباب ق نتائج سے آگاہ کرنا نہ ضروری ہے نہ ممکن ہے نہ مناسب ہے۔ البتہ جب ضرورت ہوتی ہے تو اسباب اور نتائج بھی بیان کر دیتا ہے۔ ورنہ ہر عبادت کی بنیاد صرف حکم الہیٰ ہے احکام الہیٰ کے مجموعہ کا نام شریعت ہے۔ ہم جب معاملات میں عمل کی بنیاد صرف حکم خدا کو قرار دیتے ہیں تو وبادات میں بدرجہ اولیٰ پورے عمل کی بنیاد کو صرف حکم خدا ہونا چاہئے مشلاً ہم سودی معاملات نہیں کر سکتے۔ نکاح اور طلاق میں صیغہ کا جاری کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ طلاق میں گواہوں کا ہونا لازم جانتے ہیں۔ بوقت طلاق وعرت کا پاک ہونا ضروری جانتے ہیں۔ جب ان سارے معملات کی وجہ اور بنیاد صرف حکم خدا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ ، خمس ، جہاد ، امر بالمعروف ، نہی عنالمنکر ، تولا ، تبرا ، اعتکاف ، ومرہ ، قربانی وغیرہ میں ہم وجہ تلاش کریں اور وجہ کی بنیاد عبادت قرار دے کر ایک کرور کی چیز کو ایک کوڑی میں فروخت کر دیں۔ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے سے بڑی کون چیز ہو سکتی ہے۔ ہم اس اس دنیا میں مالداروں ، افسروں ، مزہور افراد ، باثر حضرات علماٗ ، دانشور والدین ، اعزپ ، احباب ، پڑوسی حتیٰ کہ اپنے ملازم اور نوکر کی خوشنودی کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جس کی جیسی حیشیت ہوتی ہے اتنی اہمیت اس کی خوشنودی حاصل کرنے کو دیتے ہیں تو پھر خدا جو سب سے بڑا ہے اس کی خوشنودی حاصل کرنے کو ساری دنیا کے کاموں میں سب سے زیادہ اپہم کیوں نہ قرار دیں جبکہ خدا کے بعد جتنے بڑے ہیں نبی ۔ امام سب کی خوشنودی بھی خدا کی خوشنودی کے حاصل ہونے کے بعد ہی حاصل ہو سکتی ہے۔
لہذا عبادت کی وجہ صرف حکم خدا ہونا چاہئے اور عبادت کی انجام دہی صرف خوشنودی خدا حاصل کرنے کے لئے ہونا چاہئے۔ جب کہ یہ خوشنودی نور بالائے نور اور خوشنودی بالائے خوشنودی بھی ہے۔ کہ خدا خوش تو نبی و امام سب خوش ورنہ سب ناراض۔ ایسی صورت میں مشلاً نماز صبح جلد اٹھنے اور سہانے موسم سے لطف اندرونی کے لئے پڑھنا اور روزہ درستی صحت کے لئے رکھنا کروروں کی چیز رکو کوڑیوں کے کے مول کر دینا نہیں ہے تو پھر کیا ہے ؟ ایک کرور کی کرنسی کے ساتھ اگر ایک کوڑی بھی ہم رکھدیں تو اس نازیبا حرکت کو عقل اپنی توہین قرار دیگی۔ اسی بنا پر اگر عبادت میں خوشنودی خدا کے ساتھ کوئی دوسری نیت و جزبہ و خیال و احساس شامل ہو جائے تو خدا ایسی عبادت کو واپس کر دیتا ہے اور ہر گز قبول نہیں کرتا ہے۔
ہم صرف خدا کے بندے ہیں۔ اس کے علاوہ نہ کسی نے ہم کو عقل دی ہے نہ حیات۔ نہ احساس دیے ہیں نہ جزبات، نہ آج خدا کے علاوہ کوئی روزی دیتا ہے ن کل اس کے علاوہ کسی کے قبضہ میں موت ہوگی۔ہماری حاضری بھی اسی کے سامنے ہوگی اس وقت صرف اس کی خوشنودی ہمارے کام آئےگی نہ کوئی فلسفہ کام دےگا نہ کسی کی عقل۔ نہ کسی کی تقریر و نکتہ آفترنی نہ کسی کی تحریر اور علمی موشگانی۔ نہ کسی کا شعت کام آئےگا نہ کسی کا ادبی شہپارہ۔ بلکہ ان سب کی حالت عام لوگوں سے بھی بدتر ہوگی۔ لہذا ہر حکم خدا کی تعمیل کیجئے۔ واجب کو ادا کیجئے حرام سے بشیئے مستحب ہو تو شوق ادائگی پیدا کیجئے۔ مکرہ ہو تو احساس کراہت تازہ دم رکھئے۔ ماہ مبارک آ گیا ہے جو کچھ بن سکے اس ماہ میں کر ڈالئے جو کچھ حاصل کر سکتے ہیں اس سے غفلت نہ برتئے۔ روزہدار کی نیند عبادت ہے۔ خاموشی تسبیح ہے۔ اس ماہ میں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ ہر عمل کا ظواب کئی گنا ملتا ہے۔یہ مہینہ صبر کی مشق کراتا ہے۔ امیر کو غریب کے دکھ کا احساس دلاتا ہے۔ مومنین میں قوت ایثار کو ابھارتا ہے اس مہینہ میں روزی زیاد کی جاتی ہے مگر صرف مومنین کی روزی نہ کہ بد عقیدہ و بد عمل افراد کی روزی اس ماہ میں ۳/ تاریخ کو مصحف ابراہیم ۔ ۶/ کو توریت ۔ ۱۳ / کو انجیل ۔ ۱۸/ کئ زبور اور شب قدر میں قرآن مجید نازل ہوا ہے۔ اس ماہ کے پہلے دس دن رحمت کے ہیں ورآن مجید نازل ہوا ہے۔ اس ماہ کے پہلے دس رحمت کے ہین۔ دوسرے دس دن مغفرت کے ہیں اور آخری دس دن دعاؤں کے قبول ہونے کے ہیں اور دوزخ کے نجات حاصل کرنے کا زمانہ ہیں۔
اوپر لکھی تمام باتیں ارشاد رسول و ائمہ علیہم السلام کے مطابق لکھی گئی ہیں تاکہ اس ماہ میں جم کر عبادت کرنے ۔ ثواب لوٹنے ، دوزخ سے نجات حاصل کرنے اور دعاؤں کو قبول کرانے کا جزبہ ہر روزہ کے ساتھ بڑھتا جائے۔



1 2 next